مشتاق یوسفی فرماتے ہے کہ بعض صرف کتابیں چکھی جانی چاہئیں ،کچھ کونگل جانا چاہیے،کچھ اس لائق ہوتی ہیں کہ آہستہ آہستہ چبا چبا کے ہضم کی جائیں،اور کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں کسی عوضی سے پڑھوا کر خلاصہ بنوا لینا چاہیے۔گزشتہ دنوں دوستو ں کے بنائے گئے ایک واٹس ایپ گروپ میں کتاب،پڑھائی اور مطالعہ جیسے موضوع پر بحث چھیڑ گئی جس کا احوال قارئین کیساتھ شیئر کر رہا ہوں۔ اس میں کس بھی دوست کی دل آزاری مقصود نہیں ہے۔قصہ کچھ اس طر ح تھا کہ میں نے گروپ میں شامل ایک دوست سے ایک معصومانہ سا سوال کیا کہ تم مجھے اپنے مطالعہ کے بارے میں کچھ تفصیلات بتاو زمانہ طالب علمی میں نصاب کی کتابوں یا امتحانات کے لئے ہونے والے مطالعہ کے علاہ اپنی مرضی سے تم نے کو ن سی کتابیں مطالعہ کی ہیں اوراس کا مقصد کیا تھایا یہ کہ ان کا پڑھنا آپ نے کیوں ضروری سمجھا ؟ دوست کی طرف سے دیئے گئے جواب سننے سے پہلے میں اپنے قارئین کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کتب بینی اور مطالعہ نہ صرف طالب علموں کے لئے ضروری ہے بلکہ اساتذہ اور عام افراد کے لئے بھی کتب بینی اور مطالعہ نہایت ضروری ہے کیونکہ مطالعہ اور کتاب پڑھنے کا شوق انسانی فکر و نظرمیں وسعت پیدا کرنے کا موجب ہے اس کے شخصیت پر انتہائی گہرے اور مثبت اثرات مرتب ہو تے ہیں۔ اپنے شوق سے کتابوں کی چھان بین انسان کو مختلف مراحل سے گزار کربہت کچھ سکھا دیتی ہے۔زندگی کے بہت سے راز جن میں اکثر بہت ہی بھیانک ہوتی ہے آشکارہ کرتی ہے کسی فرد واحد کی جانب سے حصول علم کے لئے اپنے ذہن کو مشق یا تفتیش میں ڈالنے کا عمل بے شمار فوائد دیتا ہے۔ جن میں عقل، دانائی اورڈھنگ سے رہنے کا ہنر زندگی میں مقصدیت جیسے عوامل سرفہرست ہیں۔یہ دولت انہیں عطا کی جاتی ہے جو اس کی سچی طلب رکھتے ہیں اور اس کے حصول میں ہمہ تن مصروف و مشغول رہتے ہیں۔ علم کی ترقی اور استحکام میں مطالعہ کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے۔مطالعہ کی عادت ذہن کے تمام طبق روشن کرنے کے لئے اہم سنگ میل ہے جس کو پار کرکے آپ کی شخصیت اور عادات و اطوار میں نکھارآجاتا ہے۔آپ کے ذہن میں طاقت کا سرچشمہ صرف و صرف علم ہی ٹھہرتاہے ۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں مطالعہ کس چیز کا کرنا چاہئے کون سی کتاب پڑھنی چاہئے اور کیوں ؟۔کسی بھی کتاب یا مخصوص علم یا ہنر کے حصول کے تعقب میں جانے کے لئے ہمارے پاس سبب کیا ہونا چاہئے یا ہم بغیر کسی مقصدکے جو بھی سامنے آتا ہے پڑھ لیا کریں اور اس کو مطالعہ کا نام دیا کریں یا معاشی ،سماجی ضرورت کی بنیادپر سخت دل جمعی کیساتھ مخصوص کتابوں کا رخ کرنا چاہئے کیونکہ وہ ہماری ضرورت ہوتی ہے ۔
یہ بھی پڑھئے : خیبرپختونخواکےغیرمحفوظ بچے اورغیرفعال چائلڈ پروٹیکشن کمیشن، تحریر عبدالبصیر قلندر
مطالعہ کیوں ضروری ہوتا ہے ؟ اس کے فوائد کیا ہیں؟ وہ کون سے اسباب ہیں جن کو بنیاد بنا کر لوگ اپنی زندگی کا ایک قیمتی حصہ اس مقصد کیلئے وقف کرتے ہیں۔کیا لوگ صرف دلی سکون کے لئے بھی پڑھائی میں مشغول رہنا پسند کرتے ہیں۔جب مقاصد اعلی و ارفع ہوں گے تب کامیابی بھی اتنی ہی شاندار ہوگی۔اسی لئے مطالعہ کا مقصد حصول علم توہونا ہی چاہئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان باتوں کا علم بھی ہونا چا ہئے جو اپنی ذات اور دنیا کے لئے نافع ہو، نہیں تو بے مقصد کتب کا مطالعہ وقت کو برباد کرنا ہے۔ا س سے فائدہ تو کجا نقصان بہت زیادہ ہو گا۔ مطالعہ اس کتاب کا ہونا چاہئے جس میں آپ کے سوالوں کے جوابات ہوں یا آپ اس کو پڑھ کے مزید سوالات کو جنم دیں سکیں ۔آپ جس چیز کا مطالعہ کر رہے ہوں وہ پڑھائی سے زیادہ منزل کی جانب سکون کا ایک سفر ہونا چاہئے ۔ جس میں لطف ہو جس میں اپ کے لئے نت نئے دروازے کھل رہے ہوں۔ اختلاف اپنی جگہ لیکن میں سمجھتا ہوں مطالعہ وہ ہوتا ہے جو آپ کی سوچ میں گہرائی اور آپ کی طبیعت میں مشق کرنے کی صلاحیت پیدا کر تی ہے۔ علم کا حصول ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ یہ دولت انہیں عطا کی جاتی ہے جو اس کی سچی طلب رکھتے ہیں اور اس کے حصول میں ہمہ تن مصروف و مشغول رہتے ہیں۔
مطالعہ ان کتابوں کا کرنا چاہئے جو آپ کے اندر موجود حصول علم کی دلچسپی کو مزید گہرا کرے نہ کہ ان میں ہیجان خیزی بے زاری پیدا کریں یا آپ میں ایک مخصوص قسم کے ڈر کو مزید اجاگر کریں یا کسی ایسے خواہش کی بنیاد رکھ لیں جو مکمل طور پر مابعد طبعیاتی ہوں زمینی حقائق سے دور ہوں جہاں پر اختلاف کے علاوہ کوئی دوسرا مثبت کام ہی نہ ہوں ۔
یہ بھی پڑھئے : پشاورکوروناکےنشانےپرکیوں؟؟؟ تحریر: فدا عدیل
ہم کو مطالعہ اپنی شرائط پر کرنا چاہئے ہماری مرضی اس میں شامل ہونی چاہئے۔ کسی شخصیت سے متاثر ہوکر ان کے مطالعہ میں شامل کتابوں میں دل لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ خود کو اس مشکل میں ڈالنے اور کچھ حاصل ہونے سے پہلے پہلے پڑھنے کی عادت ہی ترک کردیں اور بیزار ہو جائیں۔بعض لوگ مطالعہ اس لئے بھی کرتے ہیں تاکہ دوسروں کے سامنے خود کو منوا سکیں اور بول سکیں۔ بعض لوگ اختلاف رکھنے کے لئے مطالعہ کرتے ہیں جوخود پر ظلم ہے ۔
مطالعہ کرتے وقت ہم کو خود پر کھڑی نظر رکھنی چاہئے کہ آیا میں کس سمت میں جارہا ہوں ،آیا میرے ہاتھ کچھ نت نئے کمالات آ رہے ہیں یامیں ایسے ہی اندھیرے میں بھٹک رہاہوں خواہ وہ ہنر کچھ بھی ہو۔ مثلاًمیری لغت کا ذخیرہ بڑھ رہا یا میری لکھائی پڑھائی میں ایک مخصوص قسم کی نکھار آ رہی ہےیا نہیں؟یاد رہے کہ مطالعہ شدہ مواد میں سے اپنے لئے پوائنٹس لکھنے سے مطالعہ مستحکم اور مضبوط ہوجاتاہے۔یادکردہ مواد کو لکھنے سے معلومات نہ صرف ذہن نشین ہوجاتی ہیں بلکہ اپنی غلطیوں کی بھی آسانی سے نشاندہی ہوجاتی ہے اور لکھنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے جو خود ایک بہت بڑا ہنر ہے۔مشہور چینی کہاوت ہے کہ کسی چیز کو ایک بار دیکھنا ہزار بار سننے سے بہتر ہے۔اب سوال یہ ہے کہ مطالعہ کہاں پر ہونا چاہئے؟مغربی ممالک میں مطالعہ کے شوقین لوگ دوران سفر ، یا پارک وغیرہ میں بھی اپنے ساتھ کتاب رکھتے ہیں اور اسی میں خود کو مشعول رکھنا پسند کرتے ہیں تاہم
موثر مطالعہ کے لئے اچھا، پرسکون اور آرام دہ ماحول کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔مطالعہ کے دوران توجہ کو منتشر کرنے والی چیزوں مثلا شور،ٹی وی اور موبائل فونز وغیر ہ سے دوری کی عادت اپنانی چاہئے۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ خواہ آپ کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو اورآپ میں کتابیں پڑھنے زوق موجود ہو تو ترقی کی معراج پر پہنچنے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا ۔علمی ترقی و عروج کا راستہ مطالعہ و کتب بینی سے ہوکر ہی گزرتا ہے۔مطالعہ و کتب بینی کے بغیر علم میں نکھار و کمال ناممکن ہے۔ آخر میں مطالعہ میں مستقل مزاجی کی عادت ان تمام عادتوں میں سرفہرست ہے جو ارب پتی بننے کیلئے درکار ہوتی ہے۔اور شاید یہی وہ وجہ ہے کہ مطالعہ کی عادت کو ارب پتی بننے یعنی(Billionair Secret)کا نام دیا گیا ہے۔ اب آتے ہیں اپنے دوستوں سے واٹس گروپ میں مطالعہ کے موضوع پر سوال کی طرف تو جناب آپ لوگوں کی طرح ہمیں بھی جواب کا انتظار ہے۔ اللہ کرے ہمارے دوست کوجواب جلد آجائیں اور ہمیں معلوم ہو کہ ان کے مطالعہ کی تفصیلات کیا ہیں؟۔(واٹس ایپ گروپ سے ماخوذ ایک مکالمہ)
ادارے دی خیبر ٹائمز کے نمائندے 24 گھنٹے آن لائن رہتے ہیں، ادارے کامضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں