میری ماں اور جنوبی اضلاع کی ادب، افاقیات، تحریر : رشید افاق

تحریر : رشید آفاق
میری ماں قبائیلی سردار اور شمالی وزیرستان کی ممتاز شخصیت جنرل شادی خیل کی نواسی ہے،عام روایتی اور قبائیلی عورت ہے،یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے ہماری تربیت بہت ہی مشکل حالات میں ایسی کی ہے کہ پچاس یونیورسٹیوں کی وائس چانسلرز ملکر بھی کسی بچے کی تربیت ایسی نہیں کرسکتے جس طرح انہوں نے جوانمردی سے ہمیں پالا اور اچھے و برے میں تمیز سکھایا،وہ کھبی سکول یا مدرسے نہیں گئی ہے لیکن میں اج تک حیران ہوں جب بیس پچیس سال پہلے انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ریڈیو کا پروگرام تو کوئی رشید علی دھکان سے سیکھے،وہ سکرپٹ اور سکرپٹ ڈیلیوری کے بارے کچھ نہیں جانتی تھی لیکن مجھے بتایا تھا کہ اس کا لہجہ اور باتیں دل کو بھاتی ہیں،وہ ڈرامے کی تیم کے بارے نہیں جانتی تھی لیکن مجھے بتایا تھا کہ اس کے قیصے بہت دلچسپ ہوتے ہیں خاص کر جب وہ کسی غریب کے بارے باتیں شروع کریں،وہ میوزک بیک میوزک اور کریکٹرز کے بارے بھی باخبر نہیں تھی لیکن مجھے بتایا کہ ان کی باتیں جو وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں اور پھر وہ ڈول باجو کی آواز اور ان کے ساتھیوں کے بروقت جوابات تو ہر کام چھوڑ کر ان کے ڈرامے سننے کے لئے مجبور کرتے ہیں،
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ میری پیاری ماں تب سے رشید علی دھکان کو جانتی تھی اور سنتی تھی لیکن مجھے یقین ہے کہ تب بھی اور آج بھی عام لوگ تو کیا ادب کے نام نہاد شاہسواروں کو بھی رشید علی دھکان معلوم تک نہیں،پتہ ہے کہ کیوں؟کیونکہ ان کا تعلق جنوبی اضلاع سے تھا،

یہ بھی پڑھئے: اب کورونا کے ساتھ رہنا ہے،مگر احتیاط اور حفاظتی تدابیر کیساتھ عمران ٹکر

اس وقت ان کی رسائی ریڈیو پاکستان تک ہوگئی تھی وہ بھی اپنی قابلیت اور ادب شناسی کی وہ سے،پھر رشید علی دھکان ریٹائرڈ ہوگئے اور پھر وہ زندہ ادب کے ٹیکھداروں کے ذہنوں سے بھی ریٹائرڈ ہوگئے،یہ صرف ایک رشید علی دھکان کے ساتھ نہیں ہوا ہے، ان جیسے سینکڑوں ایسے کردار ہیں جو ادب کو زندگی کی سانسوں سے بھی زیادہ اہمیت دیکر ان کی آبیاری کیا کرتے رہیں،لیکن وہ بھی حالات اور تاریخ کے کوڑے دانوں کے نذر ہوگئے،
آج جب بھی یہاں اس شہر پشاور جیسے ادبی شاہسواروں کا میدان جنگ کہا جا سکتا ہے بہت سے ایسے ادیب و شاعر حضرات ہیں جو پیرروشان،گل محمد سپین وامی،لائق شاہ درپہ خیل،فقیر ایپی رحمت اللہ درد،دلسوز مروت، عصمت اللہ سپرلی خیل،غازی سیال، سرکئی کمال،افگار بخاری،امان اللہ مائنل،مطیع اللہ قریشی،حیدر شاہ حیدر،اور طاہرکلاچوی کے ناموں تک سے واقف نہیں،
یہاں تک سپین یوسفزئی کو تو ہر کوئی جانتا ہے کیونکہ وہ ہر مشاعرے کے لئے لازم ملزوم ہے،
یہاں احمدشاہ مائل کو ہر ادبی محفل میں اس لئے ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا ہے کہ ان کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے،
اس شہر میں آج بھی حشمت گل کند کو اپنی ننگی اور لولی لنگڑی شاعری کی وجہ سے محفل جان سمجھا جاتا ہے،کیونکہ ان کو سننے والوں میں سے اکثر حضرات حسین سواتی کی فلموں کو دیکھنا آج بھی ادب کے زمرے میں لاتے ہیں،
یہاں آج بھی روغ لیونے نامی شاعر کو پروفیسر کے عہدوں پر برجمان دیکھا جا سکتا ہے،
اس شہرمیں آج بھی گل خانوں کو سرکاری و یظیفے دئے جاتے ہیں کیونکہ وہ وقت کے ہر بادشاہ کو آج بھی شاہ جہان سے زیادہ اہمیت کے حامل مانتے ہیں،
اور یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے،یہ اس لئے ہوتارہاہے کہ ان لوگوں کا جینا مرنا اس شہر یعنی پشاور اور ان کے اطراف میں ہیں اور تھا،یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کا میڈیا تک اپروچ تھا اور ہے اس لئے ان میں سے اکثر آج کے تیس مارخان بنے پھرتے ہیں،اور ہمارے وہ اصل ادب کے شہنشاہ ادب کے فقیروں سے بھی زیادہ گمنام ہوتے رہیں،
اگر کسی کو مجھ سے اختلاف ہو کہ ادب کی آبیاری یا معروفیت میں میڈیا کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟
تو وہ حضرات تین دن پہلے فقط اس جعلی کرنل کی بیوی کے بارے ہی معلومات کرلیں کہ سوشل میڈیا پر ان کی ریٹنگ خوشحال خان بابا اور رحمن بابا کے لیول بھی وہ کب کی کراس کرچکی ہے،
تو یہ ہوتا ہے میڈیا تک رسائی کا کمال،کوئی مانے یا نہ مانے،
باقی سب خیرخیریت ہیں،خدا ھم سب کا حامی و ناصر ہو

یہ بھی پڑھئے:    ڈولفن کو اسکی منزل مل گئی…. تحریر: ہارون رشید

 



کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں