خیبر پختونخوا چائلڈ رائٹس موومنٹ کے زیر اہتمام COVID-19 کے دوران “بچوں کے تحفظ اور سرکاری اداروں کے کردار سے متعلق ورچوئل میٹنگ کا اہتمام

پشاور ( پ ر ) منعقدہ اس اجلاس میں متعدد سرکاری اور سول سوسائٹی کے ممبران نے شرکت کی۔ سی آر ایم کوارڈینیٹر مس خورشید بانو نے ورچوئل میٹنگ کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور COVID-19 کے تحت بچوں کی کمزور صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
خورشید بانو نے شیئر کیا کہ کسی بھی تباہی میں چاہے وہ انسان کا بنایا ہوا ہو یا قدرتی سب سے زیادہ متاثر ہونے والا گروپ بچے اور خواتین ہیں۔ چائلڈ لیبر عالمگیر وبا کی وجہ سے گزشتہ دو ماہ میں خطرناک حد تک اضافہ ھورھا ھے، کیونکہ 5 مھینوں سے سکولز بند ہیں اور بچے گھروں سے مزدوری کے لئے نکل پڑے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ سرکاری محکموں کے ساتھ ایک مناسب ریفرل میکانزم قائم کرنا ضروری ہے کیونکہ نجی اداروں کے مقابلے میں ان کے پاس زیادہ وسائل ہیں۔ تاکہ بچوں کے مسائل کو مل کر حل کئے جائیں۔
جناب سعید احمد ڈائریکٹر زمونگ کور نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ زمونگ کور اسٹریٹ چلڈرن کے لئے محفوظ رہنے کا ماحول فراہم کرنے کے لئے کام کر رہا ہے۔ COVID-19 کے حوالے سے انہوں نے ذکر کیا کہ زمونگ کور نے صوبائی حکومت کی ہدایات کے مطابق 300 بچوں کو ان کے سرپرستوں کے ساتھ ان کے گھروں میں واپس بھیج دیا۔ جیسے جیسے یہ بچے کمزور مالی گھرانوں سے آتے ہیں، زمنگ کور نے وباء کے دوران فی کس سولہ ھزار اور کھانے کے پیکیج فراہم کئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے پورے لاک ڈاؤن میں ان بچوں کے ساتھ کوآرڈینیشن کو برقرار رکھا ہے اور ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے انہیں فیز وائز واپس لانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اہلیت کے لئے انہوں نے وضاحت کی کہ زمونگ گور کا ٹارگٹ مین سٹریم اسٹریٹ چلڈرن ہیں لیکن اگر کوئی بچہ یتیم یا باپ معذور ہے یا اس کی آمدنی 10،000 سے کم ہے تو پھر انہیں زمونگ کور میں تعلیم تفریح اور رھائش سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں جبکہ عمر کوئی ایشو نہیں ہے لیکن زیادہ تر 11،12 سال تک کے بچے داخل کئے گئے ہیں۔
خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن کے جناب بلال نے کہا کہ یونیسیف چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کو فنڈنگ کر رہا تھا چونکہ فنڈز بند ھو چکا ہے اس لئے یونٹس بھی مجبورا بند پڑے ہیں
مسٹر واجد کے پی لیبر ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ لیبز اور دیگر بچوں سے متعلق امور کے لئے موجودہ قانون کے رولز بنائے گئے ہیں اور انہیں کابینہ میں بھیجنا ہے مزید یہ کہ انہوں نے کہا کہ حکومت اور سول سوسائٹیوں کو انضمام میں کام کرنا چاہئے اور ایسا مسودہ تیار کرنا چاہئے جسے حکومت کے سامنے پیش کیا جائے۔
سماجی کارکن جناب قمر نسیم نے تجویز پیش کی کہ ہمیں سب سے پہلے رکاوٹوں کی سطح کی نشاندہی کرنی چاہئے کیونکہ بچوں کے زیادہ تر مسائل کرونا وباء سے پہلے کے ہیں ۔ انھوں نے کہا بچوں کے مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں لھاذا یہ دیکھنے کی ضرورت ھے کہ ذمہ دار کون ھے، آیا بچوں کے تحفظ کے لئے بنائے گئے ادارے ذمہ دار ہیں یا صوبائی حکومت/متعلقہ وزیر یا وزارت۔۔۔؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں