ورسک روڈ پشاور شہر کی رہائشی چا لیس سالہ با ہمت بیوہ تانیہ سلیم نے معاشرے کے بے رحم رویوں سے تنگ آکر اپنے دو بچوں کا پیٹ پا لنے کیلئے اپنے گھر پر کھانا تیار کر کے آن لائن آرڈر کی بکنگ اور فراہمی کا سلسلہ شروع کیاہے۔ وہ ایک نجی ٹیلی ویژن میں بطورِ میزبان کا م کرتی تھی جسے حاصل ہونے والی آمدن سے گھریلوں اخراجات میں بڑی مدد ملتی تھی۔ لیکن وہاں ہراسگی جیسے مسائل نے انہیں یہ کام چھو ڑنے پر مجبور کیا۔ معاشرے کی منفی ذہنیت نے اُنکے ہاتھ سے جب اُنکا اور اُنکے بچوں کا نوالہ چھین لیا تو شروع میں وہ ما یوس ضرور ہوئی تھی لیکن حو صلہ ہارنے کی بجائے انہوں نے اپنے ہاتھوں میں چھپے فن،پکوان، کو اپنا ہتھیار بنا لیا جسمیں اسے خاص کامیابی ملی۔
*انکا کہنا ہے کہ بِسم اللہ پڑھ کر وہ پکوان کی ابتدا ء کرتی ہے جسکی وجہ سے اللہ تعالٰی اسمیں بہت برکت ڈال دیتا ہے۔
*یو نیورسٹی آف پشاور کے شعبہء معاشیات سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر ضلاکت خان کے مطابق غیر رسمی معیشت وہ معیشت ہے جو رجسٹرڈ نہ ہو اور باقاعدہ طو رپر ٹیکس نظام میں بھی شامل نہ ہو جبکہ رسمی معیشت رجسٹرڈ معیشت کو کہتے ہیں جس پر حکومتی ٹیکس قوانین لاگو ہو تی ہیں، انہوں نے مزید بتایا کہ غیر رسمی معیشت اگر ایک طرف کرپشن، سمگلنگ، ٹیکس کی عدم ادائیگی اور غیر معیاری پیداوار وغیرہ جیسے مسائل کو پروان چڑھاتی ہے تو دوسری طرف یہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں بے روزگاری کم کرنے میں بھی بڑا کردار ادا کرتی ہے۔
اِنٹر نیشل لیبر آر گنائزیشن ((ILO کی سال 2018 کی ایک تحقیق کے مطا بق عالمی طور پر تقریباً دو ارب افرادتانیہ سلیم کی طرح اِنفارمل اکانومی یعنی غیر رسمی معیشت سے وابسطہ ہیں جس میں 63 فیصد مرد جبکہ58 فیصد خواتین شامل ہیں اور ان میں سے دو تہائی کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔
انگریزی اخبار دی نیشن کی فروری 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 70 فیصد سے زیادہ لوگ غیر رسمی معیشت سے اپنی روزی روٹی کا بندوبست چلا رہے ہیں جسکی کُل امدن ملکی مجموعی پیداوار ) GDP) کا تقریباً 35فیصد بنتا ہے جو ترقی پذیر ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔
*اِن لینڈ ریو نیو فیڈرل بورڈ آف ریو نیو ((IR,FBR کے ممبر ٹیکس پا لیسی ڈاکٹر حامد عتیق سرور کہتے ہیں کہ اِنفارمل اکانومی جہاں ملکی معیشت پر بوجھ ہے وہاں غیر رسمی معیشت سے وابسطہ افراد کا رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کی طرف سے کاروباری حضرات کیلئے فراہم کردہ سہولیات، جیسے قرضوں کا حصول وغیرہ سے مستفید ہونا ممکن نہیں۔ اُنکا کہنا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈینینس 2001 کے تحت سالانہ چار لاکھ تک آ مدن کمانے والا کاروبار انکم ٹیکس سے مستثنٰی ہے۔ اسی طرح سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے مطابق کاٹیج انڈسٹری جو گھروں میں صنعت و حرفت کا کام کرتے ہیں اگر وہ بجلی کاکمرشل یا انڈسٹریل کنکشن استعمال نہ کر رہا ہو تو ان سے انے والے 30لاکھ تک کے آمدن پر سیلز ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر حامد نے بتایا کہ حکومت اس سال کی بجٹ میں چھوٹے اور درمیانے درجے والے کاروباری حضرات کیلئے کافی آسانیاں لا رہا ہے اور موجودہ کرونا وائرس کی وبائی صورتِحال میں بھی حکومت ان کے تین مہینوں کے بِلوں میں سبسڈی دی رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انفارمل اکانومی کا دستاویزی شکل میں آنا ملکی معیشت اورٹیکس نظام کی کامیابی کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی 7مئی کو قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں لاک ڈاؤن میں نرمی لانے کیلئے ہونے والے فیصلوں کا اعلان کرتے وقت اس بات کا اظہار کیا تھاکہ ملک کے 75 سے 80فیصد آبادی پر مشتمل انفارمل اکانومی پر دارومدار کرنے والے ان مزدور دھیاڑی دار طبقے کے مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے سارے صوبوں کی مشاورت سے یہ فیصلے کیے گئے ہیں۔
*لیکن دوسری طرف پشاور شہر میں پجگی روڈ پر دونبوں کا کاروبار کرنے والے حشمت اور تربوز بیچھنے والے محمد جواد کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے انکے کاروبا ر پر کافی برا اثر پڑا ہے اسلئے حکومت انکو ریلیف دیں۔
*شیخ زید اسلامک سنٹر کے سابقہ ڈائریکٹر اور مزہبی سکالر ڈاکٹر دوست محمد خان انفارمل اکانومی سے متعلق اسلامی نقطہء نظر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریاست اور شہریوں کے ایک دوسرے پر حقوق اور ذمے داریاں ہوتی ہیں اسلئے ملکی قوانین کے مطابق ایک دوسرے کے مفادات اورضروریات کا خیال رکھنا ان پر لازم ہے۔
*تانیہ سلیم کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں سرکاری نوکری کا حصول اتنا آسان نہیں کہ ہر کسی کو مل سکے۔ اسلئے خاص کر خواتین گھروں میں وقت فضولیات میں ضائع کرنے کی بجائے اپنی دلچسپی کے مطابق گھر پر ہی کوئی مناسب کاروبارشروع کر کے گھریلوں اخراجات کا بوجھ کم کرنے میں اپنا بھر پورکردار ادا کریں۔ اُنکا کہنا ہے کہ اگر اللہ تعالٰی پر بھروسہ رکھاجائے تو وہ بالکل مایوس نہیں کرتا اور محنت کا پھل ضرور دیتا ہے۔
*ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری ملکی مجموعی پیداوار کے 2.5 فیصد کے برابر پیسہ خیرات میں دیتی ہے لیکن 21 کروڑ آبادی کے اس ملک میں صرف 1.5فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس نظام میں موجود پیچیدگیوں کی وجہ سے عوام میں ٹیکس نظام پر اعتماد کا فقدان تا حال موجود ہے اور جسے دور کرنے کیلئے حکومت کو اس محاذ پر مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
“اِنفارمل اِ کا نومی اور ملکی معیشت تحریر: اکرام اللہ مروت” ایک تبصرہ