ابراہیم خان
ویسے تو گلشن ہو اور عزیز نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں. اگرچہ میں بھی بابا بن گیا ہوں لیکن مجھ سے بہت سینئر ہونے کے باوجو میرے ساتھ دوستی اور پیار ایسا تھا کہ جیسے لنگوٹئے دوستوں کی بے تکلفی ہوتی ہے. انتہائی بے تکلف مذاق کو بھی اپنے گلشن میں سمیٹ لیتا. اس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی تھی لیکن اس کے اندرجو جوار بھاٹا اٹھتا تھااس سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے کیونکہ وہ خودداروں کی طرح اپنے مسائل کی تشہیر نہیں کرتا تھابلکہ مسکرا ہٹ اس کا خاصا تھا .
میں روزنامہ مشرق کا جب میگزین ایڈیٹر تھا تو گلشن کی مجھے یہ بات بڑی بری لگتی تھی کہ وہ جب کوئی ایکسکلو سیو کام کرکے لاتا تو اس کی کوشش ہوتی کہ اس کے کام کو نمایاں انداز سے چھاپا جائے. وہ اس خواہش کی تکمیل میں اس وقت تک جتا رہتا جب تک اس کی تصاویر چھاپ نہ دی جاتیں. میں اس کے اصرار سے تنگ ہوتا تو اسے ڈانٹ دیتا . نواز شریف کی 12 اکتوبر والی برطرفی ہوئی تو سیاسی گٹھن کا دورتھا چند روز بعد گلشن میرے پاس پھولوں کی تصاویر لایا اور کہا کہ سنڈے میگزین کے بیچوں بیچ یعنی سنٹر فولڈ میں رنگین چھاپ دیں. اس کی خواہش کی تکمیل بہت مشکل اس لئے تھی کہ ان دنوں کلر پرنٹنگ کیلئے سکینگ بنوائی جاتی تھی اور زیادہ لاگت کی وجہ سے انتظامیہ ان صفحات پر کسی ماڈل لڑکی کو چھاپنے پر زیادہ مصر ہوتی تھی اس لئے میں نے گلشن کو کہا کہ دیکھ کر بتائوں گا. گلشن نے اپنی روایت کے مطابق دھیرے دھیرے میرے ناک میں دم کردیا. میں اسے ٹالتا رہا کہ کچھ روز بعد گلشن کو میں نے اپنے ساتھ پہلی اور آخری بار جلالی انداز میں بات کرتے دیکھا مجھے اس نے کہاکہ” تم کل کے بچے ہو اورمیری فلاور شو کی تصاویر نہیں چھاپ رہے تم کیا جانو عکسی صحافت کیا ہوتی ہے” گلشن نے اپنے دل کا غبار نکال دیا لیکن مجھے اس پر پیار آیا کہ جو اس کے دل میں تھا وہ
یہ بھی پڑھئے: ” سر بہت چھپا ھوں ” تحریر ۔۔۔۔۔ روخان یوسف زئی
میرے منہ پر کہہ گیا اور یہ گلشن کی بڑی خوبصورتی تھی وہ دل میں کچھ نہیں رکھتا تھا.
گلشن اپنا دل تو ہلکا کر گیا لیکن میرا دل بوجھل کر گیا تب میں نے فیصلہ کر لیا کہ کچھ بھی ہو گلشن کی تصاویر چھاپوں گا اور اس کی خواہش کے مطابق ہی سنٹر فولڈ میں ہی چھاپوں گا میں نے ان تصاویر کو مشرق کے مرحوم ڈیزائنر فرخ سے ڈیزائن کروایا اور جمعہ کے دن سنڈے میگزین کی فائنل کاپیاں بھیج دیں جس میں دوصفحات پر تصاویر کے درمیان میں نے ایک چھوٹی سی تحریر میں سیاسی گٹھن اور پھولوں کاموازنہ کردیا تاکہ پھولوں کی اشاعت کا جواز بن جائے. کاپیاں پریس بھیجتے ہی میں نے انٹر کام پر گلشن کو گویا منانے کیلئے اطلاع دی کہ تمہاری تصاویر اس اتوار چھپ رہی ہیں گلشن نے بغیر کچھ کہے فون رکھا اور اگلے منٹ میں وہ سیڑھیاں چڑ ہ کر میرے سامنے آکر بیٹھ گیا. اس کا کھرا پن یہ بھی تھا کہ خوشامد کے طور پر بھی شکریہ ادا نہیں کرتا تھا اس نے مجھے کہا ملک میں لوگ اکتائے ہوئے ہیں ایسےمیں سیاست کے قصوں کے بجائے انہیں قدرت کے رنگ پھولوں کی شکل میں دکھائو. گلشن کی بات ہی میں نے تحریر کی تھی اور اس دن مچھے گلشن کے مشاہدے کی قابلیت کو ماننا پڑا. تصاویر چھپ گئیں تو گلشن بہت خوش ہوا اور اس دن سے گلشن کے ساتھ دوستی پکی ہوگئی اور پھر 1999 سے لے کر رمضان سے پہلے ہونے والی آخری ملاقات تک میں نے اسے انکل کہا اور اس نے مجھے عمر میں چھونا ہونے کے باوجود ہمیشہ ابراہیم صاحب کہہ کر بلایا.
اس دوستی کے دوران گلشن کو قریب سے جاننے کا موقع ملا تو گلشن کا قد کاٹھ میری نظر میں کئی گنا بڑھ گیا. گلشن جن حالات میں زندگی گزار رہاتھا وہ غیر معمولی تھے لیکن اس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی. اسے دیکھ کر مجھے اکثر یہ شعر یا د آتاتھا
ہنستی ہوئی آنکھوں میں بھی غم پلتے ہیں.
کون مگر جھانکے اتنی گہرائی میں.

واقعی گلشن کی زندگی میں بہت کم ساتھیوں نے جھانکا ہوگا اور جو بھی یہ جانتا ہے اس کی نظر میں گلشن عزیز بہت بڑا آدمی تھا اس کے جانے سے ایک پورا عہد تمام ہوا. گلشن نے اپنے نوجوان بیٹے کے لاشے کو بھی اٹھایا لیکن دبلے پتلے اس شخص نے یہ سانحہ بھی جھیل لیا اور اس کی شدت صرف اسے ہی پتہ تھی جو وہ اپنے ساتھ ہی لے گیا.
گلشن حق اور سچ کی بات بڑی آسانی سے ہرکسی کے سامنے بھی کہہ جاتا تھا. جیسا میں نے کہا کہ وہ جو کام کرتا ہے وہ اسے چھپوانے کیلئے بھی بے چین ہوجاتا. اس سلسلے میں ایک واقعہ بتا رہا ہوں. پشاور کے ایک سیاسی گھر میں شادی کی تقریب ہوئی وہاں اس وقت کے اعلی ترین حکومتی اہلکار بھی آئے تو ایک اچھا خاصا سیاسی اجتماع بن گیا. گلشن رنگین تصاویر لے کر آیا لیکن اخبار کے انتظامی سربراہ نے تصاویر شائع کرنے سے انکار کردیا. جس پر گلشن نے تکرار کی اور مجھ سے شائد ماہرانہ رائے مانگی تو میں نے کہا کہ حکومتی اہلکار آئے تو تصاویر لگنی چاہئے اس حمایت پر گلشن نے پوچھا کہ تصاویر نہ لگنے کی وجہ کیا ہے تو صحافتی نزاکتوں سے عاری اس “شخص” نے جواب دیا کہ مجھے اس تقریب میں نہیں بلایا اس لئے…. کچھ توقف کے بعد اس نے گلشن کو کہا کہ مجھے وہاں مدعو نہیں گیا گیا تو تمہیں (گلشن) وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس استدلال پر گلشن نے برجستہ جواب دیا کہ ہمیں لوگ جانتے ہیں تو بلاتے ہیں آپ کو نہیں جانتے تو میں کیا کروں. یہ کہہ گلشن نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا. گلشن کی تصاویر نہ چھپیں لیکن اس نے سچ بات کہی.
گلشن عزیز ایک خوبصورت شخصیت کا مالک تھا اس کی بہت سی باتیں ہیں جو رقم کی جاسکتی ہیں. مجھ سے دوستی کی وجہ سے انہوں نے پریس کلب کے کرکٹ ٹورنامنٹ کے اعلان پر کہا کہ “میں آپ کے علاوہ کسی کو نہیں کہتا مگر مجھے نو نمبر کا سپورٹس شوز دلا دینا ” میں نے کہا انکل ہوجائے گا. میں نے عزیزی ظفر اقبال اور سعد بن اویس سے نو نمبر کاشو مانگا جس پر انہوں نے کہا کہ ہو جائے گا . پھر اچانک کرونا وارد ہوگیا اور جوتا تو نہ ملا مگر سب کا ہر دلعزیز گلشن منوں مٹی تلے جاسویا. اس کا آخری دیدار کرتے ہوئے مجھے یوں لگا کہ گلشن آج اپنی ساری فکروں سے آذاد ہوگیا.
آہ گلشن , تم کل بھی ہمارے عزیز تھے اور آئندہ بھی رہوگے.
مشرق کی انتظامیہ نے ان کی تدفین کے سارے انتظامات کر کے ان کو کم از کم اچھا الوداعی گارڈ آف آنر دیا جو قابل تحسین ہے.
یہ بھی پڑھئے: پشاورکوروناکےنشانےپرکیوں؟؟؟ تحریر: فدا عدیل
2 تبصرے “گلشن بھی اور عزیز بھی… وہ اسم بامسمہ تھا یعنی گلشن بھی اور عزیز بھی. تحریر : ابراہیم خان”