چُپ کا روزہ
مُصطفیٰ بنگش
یہ پچھلے سال کی بات ہے، صوبائی اسمبلی کے سامنے ایک ریلی تھی جس میں سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی اور صوبائی اسمبلی کے دیگر اراکین نے شرکت کرنی تھی، میں بھی بطور نجی ٹی وی رپورٹر اس تقریب کی کوریج کیلئے موجود تھا، اب چونکہ ریلی شروع ہونے کا انتظار تھا ایسی میں مجھے وہاں موجود اپنے ایک دوست کے ساتھ سیاسی بحث کیلئے فرصت ملی، بحث کیا تھی ہم دونوں کے درمیان شرط لگی کہ جو زیادہ ایم پی ایز کے نام اور ان کے حلقے بتائے گا جیت اس کی ہو گی، ریلی میں شرکت کرنے والے کچھ ہی ایم پی ایز تھے، ریلی شروع ہونے تک ہمارا مقابلہ 5،5 پوائنٹس سے برابر رہا، یعنی پانچوں ایم پی اے کو میں اور میرا دوست جانتے تھے، چونکہ میچ برابر رہا اس لئے کچھ وقت گزرنے کے بعد ہم یہی سمجھے کہ ہار جیت کسی کو نصیب نہیں ہوئی، لیکن اسی دوران وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے مذہبی امور ظہور شاکر صاحب پر میری نظر پڑ گئی، ظہور شاکر کا سیڑھیوں سے اترنے کا انداز انتہائی خوبصورت تھا، ریلی کی جانب بڑھتے اس ایم پی اے کی طرف میں نے اشارہ کیا اور دوست سے پوچھا، اب بتاؤ یہ کون ہیں؟ جواب ملا، یہ ایم پی اے نہیں، اور جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس کو میں نے ابھی تک اسمبلی میں دیکھا ہی نہیں ہے، خیر ظہور شاکر صاحب کا میں شکرگزار ہوں کہ ان کا تعارف کرانے پر میں نے ایک پوائنٹ سے مقابلہ جیت لیا۔ لیکن میرے ذہن میں ایک سوال نے جنم لیا کہ آخر ہنگو کے ایم پی اے کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ کچھ دیر سوچنے کے بعد مجھے اس سوال کا جواب مل گیا اور وہ تھا “چپ کا روزہ”
تاریخ گواہ ہے کہ بدنصیب ہنگو نے ابھی تک کسی ایسے ذمہ دار شخص کو جنم نہیں دیا جو اس ضلع کی آواز بن سکے، اسمبلی میں بتا سکے کہ ہمارے کیا مسائل ہیں، ہم کتنے پسماندہ ہیں، عوام کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے ہمیشہ ایسے انوکھے لوگوں کو پارلیمان تک پہنچایا ہے جن کی آواز اپنے اپنے حلقوں میں تو دور دور تک پہنچتی ہے، دہاڑ دہاڑ کر بولنے والے یہ لوگ اپنی کارکردگی ایسے دکھاتے ہیں جیسے ہنگو گلستان بن گیا ہو، لیکن اپنی اس اونچی آواز کے ذریعے سادہ لوح لوگوں سے ووٹ لینے والے ان افراد کی آواز اسمبلیوں میں بیٹھ جاتی ہے، اور وہ چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں، اسمبلی اجلاس میں شرکت کرتے ہیں، وزیرستان سے لے کر پشاور تک کے مسائل سنتے ہیں لیکن ہنگو کے مسائل کو اسمبلی کی دیواروں کو بھی نہ سنانے کی قسم کھاتے ہیں اور پھر میرے اس دوست کی کیا غلطی جو ایسے ایم پی اے کو ایم پی اے ماننے سے ہی انکار کر دے، کیونکہ دیکھا اور سنا ان کو جاتا ہے جو بولتے ہیں۔۔
پچھلے ہفتے کی بات ہے، اسرار مہمند صاحب مشال ریڈیو کے پروگرام میں شرکت کیلئے ظہور شاکر اور شاہ فیصل کو امریکہ سے ٹیلی فون کر رہے تھے اور پروگرام میں بات بھی ہنگو کے مسائل پر ہونی تھی لیکن یہاں بھی انہوں نے رکھا چپ کا روزہ، اور پروگرام میں شرکت کرنے سے نہ صرف یہ کہ انکار کر دیا بلکہ اپنے موبائل فون بھی بند کر دیئے۔۔
خیر یہ صرف ظہور شاکر اور شاہ فیصل صاحب کی بات نہیں ہے بلکہ خیال زمان صاحب کا بھی یہی حال ہے، تینوں نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر، کانوں میں روئی ٹھونس کر منہ کو تالے لگا کر چپ کا روزہ رکھا ہوتا ہے اور صم بکم والی صورتحال بنائی ہوتی ہے۔ اور آپ یقین نہیں کریں گے کہ جب یہی لوگ غلطی سے ہنگو آ جاتے ہیں تو بیس بیس لوگ ان کے آگے پیچھے لگ کر ایسے واہ واہ کرتے ہیں، کہ جیسے یہ بڑے پارلیمانی افلاطون ہیں اور انہوں نے پارلیمان میں ہنگو کے مسائل اٹھاتے ہوئے یہ پوچھا ہو کہ ہمیں یہ بتایا جائے کہ ہم کتنی صدیوں تک پسماندہ رہیں گے۔ خیر ہنگو کو گولی ماریں، لوگ تو ان کو اب ایم پی اے اور ایم این اے ماننے سے ہی انکاری ہیں۔ اور اس کی وجہ ہے “چپ کا روزہ”
یہ باتیں شاید ہنگو کے عوام کیلئے اتنی اہمیت کی حامل نہ ہوں، کیونکہ ان بدنصیبوں کو ابھی تک کوئی ذمہ دار ایم پی اے یا ایم این اے نصیب نہیں ہوئے تو اسلئے ان کو بھی “چپ کے روزے” کی عادت پڑ گئی ہے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ جب تک ہم اپنے مسائل سے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو آگاہ نہیں کریں گے تب تک ہنگو میں ترقی کی امید رکھنا دیوانے کا خواب ہی رہے گا !!