شمالی وزیرستان میں سب سے زیادہ مشہور پھولوں کا میلہ جس کو عرف عام میں دا گلونو نندارہ بھی کہا جاتا تھا ۔ یہ اگر چہ اب کبھی کا ختم ہو چکا ہے لیکن بڑےبوڑھے جب بھی اپس میں پرانی باتیں چھیڑتے ہیں تودا گلونو نندارہ کو لازمی طور پر زیر بحث لاتے ہیں ۔ مجھے ذاتی طورپر یاد نہیں ، کہ یہ کب کا ختم ہو چکا ہے اور اس پر بھی وقت کا گرد و غبار پڑچکا ہے ۔ لیکن اپنے بڑوں سے اس کے بارے میں کافی کچھ سُنا ہے اور بار بار اس کے تذکرے ہو تے رہتے ہیں اس لئے اس کے بارے میں جو بھی معلومات ہیں میرے خیال میں وہ کافی ہیں۔ اس کو پھولوں کا میلہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں انے والا شرکت کرنے والا ہر بندہ اپنے کانوں اور ہاتھوں میں ایک خاص قسم کے پھول جس کو خوجارا پھول کہتے تھے، لئے ہو تا تھا اور میلے میں شریک ہو تا ۔ یہ پھول جو ہمارے قریبی پہاڑوں میں موسم بہار میں بہت بڑٰی تعداد میں اُگتے تھے، لوگ لا کر اس میلے میں ایک سماں بناتے تھے ۔ سخت سردی کا موسم گذرتا تو لوگ گویا ایک قسم کا جشن مناتے تھے ۔ یہ جشن کسطرح کا ہو تا تھا اس کے بارے میں میرے چچا حاجی غفور خان نے مجھے بتایا کہ میں بہت چھوٹا تھا لیکن پھولوں کے میلے میں کئی بار شریک ہو ا ہوں ۔ پھولوں کا یہ میلہ کبھی عیسوڑی کے پرانے کوٹ نامی مقام پر لگتا تھا اور کبھی حسوخیل میں مولانا یعقوب خان جامع مسجد کے قریب ایک کھلے میدان میں لگتا تھا ۔ یہ مجھے نہیں معلوم کہ کیوں کبھی ایک جگہ اور کبھی دوسری جگہ لیکن لگتا ضرور تھا ۔ اور اس میں ہر ایک گاؤں کے لوگ اپنے ساتھ کو ئی نہ کوئ روایتی ڈش بھی لا تے تھے اور ساتھ میں اپنے گاؤں کے ڈمان کو بھی ڈھول بجاتے ہو ئے جلوس کی شکل میں میلے میں شریک ہو تے تھے ۔ اس میلے میں پورا دن روایتی اتنڑ اور انفرادی ڈانس کے مقابلے ہو تے تھے اور بیس سے لیکر تیس تک ڈھول بھی برابر پورا دن بجتے تھے ۔پھر کھانے کا وقفہ ہوتا تھا اور ہرایک گاؤں والے اپنے لا ئے ہو ئے ڈشز میدان میں لگاتے تھے اور سبھی مل کر ایک دوسرے کی ڈشز کو ساتھ ساتھ انجوائے کرتے ۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے گاؤں زیرکی سے جو چیرائی اور پوستہ میلے میں اتا لوگ اس کو بڑ ے شوق سے تناول فرماتے کیونکہ یہ ہمارے گاؤں کی سپیشلٹی تھی اس طرح ہر ایک گاؤں سے خاص خآص ڈشز اتی تھیں جس کو لوگ کھا کر تعریفیں کرتے تھے ۔ظہر کی نماز کے بعد سب لوگوں کیلئے چائے کا انتظام اسی گاؤں کی طرف سے ہوتا تھا جہاں پھولوں کا میلہ لگتا تھا ۔
یہ بھی پڑھئے : ملک قادر خان شہید کی یادیں ۔۔ تحریر احسان داوڑ
ہمارے گاؤں کے ایک بزرگ نے مجھے بتا یا کہ بہت پہلے اس میلے میں گاؤں کی بوڑھی خواتین بھی شریک ہو تی تھیں اور عام طور پر کھانے کے بڑے بڑے تھال یہی خواتین میلے میں اپنے سروں پر رکھ کر لیجا یا کرتی تھیں۔ اور بہت پہلے یہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ اتنڑ میں بھی حصہ لیتی تھیں جس کو براگائی اتنڑ کہا جاتا تھا ۔ اس زمانے کی خواتین ایک خاص قسم کی قمیص پہنا کرتی تھی جس کو گنڑ خت ( بھاری قمیص ) کہا جاتا تھا،اج کے ہمارے ترقی یافتہ دور میں گو کہ یہ ایک عجیب قسم کا رواج لگتا ہے لیکن ہمارے اباء اجداد ہم سے زیادہ تہذیب یافتہ اور کلچرڈ تھے اور اس کا اندازہ براگائی اتنڑ کی روایت سے لگایا جاسکتا ہے ۔ اس زمانے میں گھر کی بوڑھی خواتین گھر کی عملی طور پر ملکہ ہوا کرتی تھیں اور گھر میں اسی کا حکم چلتا تھا ۔ خواتین کی عزت اور وقار کا یہ حال تھا کہ اس زمانے میں کو ئی بڑی عمر کی خاتون کو نام سے پکار ہی نہیں سکتا تھا بلکہ فلاں کی ماں یا فلاں کی دادی وغیرہ جیسی کنیت سے بڑی عمر کی خواتین کو یاد کیا جاتا تھا ۔
یہ خواتین سہ پہر کو اپنے گاؤں کی مردوں کے ساتھ ساتھ واپس اپنے اپنے گھروں کو اجاتی تھی ۔ پھولوں کے اس میلے میں خواتین بھی مردوں کی طرح خوجارا کے پھول اپنی ہاتھوں میں لئے شریک ہو جایا کرتی تھیں جو اس کیلئے اپنے گھر والے قریبی پہاڑوں سے لاتے تھے ۔یہ میلہ تین دن تک جاری رہتا تھا اور سبھی لوگ بلا امتیاز اس میں اپنا حصہ ڈالتے تھے ۔ یہ میلہ اس پاس کے دیہاتوں کے باسیوں کے درمیان اخوت اور محبت بڑھانے کا ایک شاندار موقع ہوا کرتا تھا اور اسی میلے اور اس جیسے دیگر تقریبات کی وجہ سے پورے علاقے کے لوگوں کو ایک اجتما عی پلیٹ فارم پر جمع ہو جانے میں کسی قسم کی مشکل پیش نہیں اتی تھی۔ جوں ہماری خود ساختہ ترقی کی راہیں کھولتی گئیں ہم نے اپنے اجتماعیت اور اتحاد و اخوت کو بھی داؤ پر لگا دیا اور اس میں جو رہی سہی کسر باقی تھی اس کو حکو مت نے پوری کی ۔
یہ بھی پڑھئے : شمالی وزیرستان میں جاری کشت وخون۔۔ احسان داوڑ
امریکہ میں اج بھی ایسے قبائل موجود ہیں جن کو حکومت کی طرف سے بہت ساری مراعات ملتی ہیں لیکن وہ اپنے پرانے کلچر اور تہذیبی ورثے کو محفوظ کئے ہو ئے ہیں جبکہ ہماری تہذیب اور ثقافت کے کچھ دشمن ہم خود ہیں اوراس سے بھی زیادہ ہماری حکومت کو جب بھی موقع ملا ہے ہماری ثقافت پر وار کیا ہے اور ہمارے ہی ہاتھوں ہماری اپنی ثقافت کو تباہ و برباد کرنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ نہ جانے اس میں کونسا قومی مفاد پوشیدہ ہے ورنہ چاہئے تو یہ تھا کہ ہمارے علاقے اور ہماری ثقافت کو محفوظ رکھنے کیلئے ہماری سابقہ حیثیت کو دوام بخشنے کیلئے ہمیں مراعات دئے جاتے تاکہ صدیوں پرانی یہ تہذیبی ورثہ محفوظ ہو جاتا ۔ لیکن ہم نے نہ تو خود اپنے ورثے کو محفوظ بنا یا اور نہ ہی حکومت نے ہمیں ایسا کرنے دیا۔اس کا نقصان یہ ہوگا کہ ہماری ہزاروں سال پر محیط جو پرانی شناخت تھی وہ ختم ہو جا ئے گی اور رفتہ رفتہ ہم بھی تاریخ کے کوڑے دانوں میں گم ہو جا ئینگے ۔ ( ماخوذ از وزیرستان کا ثقافتی ورثہ ۔ تحریر احسان داوڑ)
ادارے دی خیبرٹائمز کے نمائندے 24 گھنٹے آن لائن رہتے ہیں، کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
6 تبصرے “وزیرستان میں پھولوں کا میلہ، جو وقت کی گردو غبار میں دفن ہو چکا ہے۔ تحریر : احسان داوڑ”