پولیس اہلکار بھی ہمارے گھروں سے نکلتے ہیں۔۔۔ خصوصی تحریر : رشید آفاق

مجھے ذاتی طور پر ایسے واقعات سے درد کی حد تک تکلیف ہوتی ہے، کہ کیا آنا صرف ھم عام انسانوں کی ہوتی ہے؟
کیا پولیس والے ھم میں سے نہیں ہیں؟
کیا وہ اس معاشرے کا حصہ نہیں؟
کیا ان کو درد،احساس،تکلیف،
آنا اور عزت نام کی چیز سے کوئی سروکار نہیں؟
بس ایک ہم ہی اس معاشرے کے کرتادھرتا ہے؟
ھم اور ہماری جھوٹی انا سے ہی یہ معاشرہ قائم و دائم ہے، مجھے ذاتی طور پر کھبی یاد نہیں پڑتا کہ میں نے ج تک کھبی کوئی پولیس آفیسر تو کیا ایک عام پولیس مین کو بھی اپنا پریس کارڈ دکھا کر یا مغلوب کرنے کی کوشش کی ہو؟
یا اسے تلاشی کرنے سے روکا ہو،بلکہ سالہاسال تک کھبی اپنا کارڈ پرس سے نکالا ہو،عام شاہراہ تو کیا کھبی ائرپورٹ پر بھی جب کوئی اہلکار مجھے جان کر یہ کہے کہ سر آپ جا سکتے ہیں ھم اپ کی تلاشی کیسے لے سکتے ہیں؟
یا میری کوئی تصنیف شدہ کم بخت کتاب بیگ میں دیکھ کر شرمیندہ ہوکر کہے کہ سر آپ جا سکتے ہیں ۔۔۔
تب میں بلا جھجک اسے کہتا ہوں کہ نہیں، میری تلاشی لینا اپ کا حق ہے لہذا اپ اپنا کام، فرض نبھائیں اور مجھے خوشی ہوگی پتہ نہیں لوگوں کی آنا کو کس ایٹمی توانائی کی لت پڑ گئی ہے کہ اپنی تلاشی لیناتوہیں سمجھتے ہیں؟
میری اس کہانی کا زیادہ تر دوستوں کو پتہ ہوگا کہ ایک دن میں اپنے بیٹے ارسلان آفاق کے ساتھ صدر کے فوارہ چوک سے مین صدر روڈ کو جارہا تھا جو کہ ون وے ہے،”میں نے بیٹے کو بتایا کہ یہ ون وے ہے اس طرف سے نہ جاؤ، تب میرے بیٹے نے بتایا کہ ابو اپ ہیں نا، میں خاموش رہا، جب کارنر پر پہنچے تو وہاں ایک پولیس کانسٹیبل کھڑا تھا، اس نے کہا کہ سر اپ بھی ون وے پر آئے؟ تب میں نے کہا کہ ھم نے غلطی کی ہے لہذا ہمیں جرمانہ دو، اس نے کہا کہ سر آپ کو کیسے جرمانہ دوں؟( کیونکہ ھم ہاتھی خانی یا کوئی بڑی توپ ہیں ) میں نے نارملی کہا کہ کیوں نہیں، آپ ہمیں چلان دو پلز، بہرحال وہ رشیدافاق (جیسی مہاں ہستی) کو چلان دینے کی جرات نہیں کرسکتا تھا، (کیونکہ ہمارے ہاتھ بہت لمبے ہیں اور اکثر اوقات اعلی آفیسرز کے ساتھ اٹھک بیھٹک ہوتی ہے) میں نے اسے سیدھا سیدھا بتایا کہ اگر آپ میرا چالان نہیں کروگے تو میں آپ کے ایس ایس پی صاحب کو بتاؤنگا؟مجبوراً اس نے کہا کہ پھر تو اپ کو دو سو روپے جرمانہ دینا پڑیگا، میں نے کہا کہ ٹیھک ہے لیکن ڈرائیور صاحب کے پاس لائسنس بھی نہیں لہذا دونوں چالان ساتھ دیدیں،
ھم نے چالان بھر دئے اور اپنے بیٹے کو کہا کہ روز اپ سے دو سو روپے کاٹتا رہونگا،
لہذا جب تک ھم جیسے لوگوں کو سڑکوں پر نہیں گسیٹھا جائیگا؟ ھم سمیت معاشرے کے ہر فرد سے اس کے گناہ کے برابر حساب لینے کا اختیار پولیس کو نہیں دیا جائیگا؟ تب تک ہماری پولیس کی گریبان ہوگی اور ہم جیسے جھوٹی آنا کے مارے لوگوں کے ہاتھ ہونگے؟
اور ہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ سڑک پر کھڑا سپاہی ہم جیسے تیس مارخانوں کو نہیں جانتا، کیونکہ ہماری دوستی تو ماشاءاللہ بڑے آفیسرز کے ساتھ ہیں، لیکن پھر ھم اپنی آنا کی تسکین کے لئے اپنے مہربانیوں کو بتا دیتے ہیں اور یہ ان کی اعلی ظرفی اور اپنے جوانوں کے ساتھ زیادتی ہے کہ ان کے کانوں کو مروڑتے ہیں، جو کہ نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے تھا، اور ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ کاش کوئی چیف جسٹس تو پولیس کا بھی ہونا چاہئے تھا؟ اور شائد ان کا اپنا چیف جسٹس یا اپنا ہے بھی؟لیکن شائد وہ کا نہیں رہا؟
امید ہے کہ میرے سنئیر اور جونئیر اس حقیقت کو تسلیم کرکے مجھے معاف فرمائیں گے،
فقط اپ سب کا اپنا رشیدافاق

اپنا تبصرہ بھیجیں