ایک دفعہ اتفاقاً میں نے اپنے حجرے کے اوپر والی دیوارپر رمضان کے چاند کی جگہ پر کوئی نقش رکھا تاکہ عید کی چاند دیکھنے میں دقت نہ ہو ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ 29 ویں رمضان کی مغرب پڑھکرمیں چھت پر چڑھا تو میرا چھوٹا بھائی اکرام اللہ اور میرے چچا حاجی غازی الرحمن جو ان دنوں سعودی عرب سے تازہ تازہ ائے ہوئے تھے ، وہ بھی رویت ہلال میں میرے ساتھ شریک ہوئے بلکہ جوں ہی میں نے انہیں وہ جگہ بتا دی جہاں میں نے ایک نشانی رکھی تھی میرے چچا نے فوراً کہا کہ وہ رہا چاند ، اور ساتھ ہی میرے بھائی نے بھی تائید کی ۔ نیچے اکر مقامی علماء کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تو کمیٹی کے سربراہ مولانا دیندار نے جیسے ہی میرے چچا کو دیکھا اور پوچھا کہ کیا تم نے بھی چاند دیکھ لیا تو چچا نے کہا کہ ہاں ۔ مزید کوئی بھی تفصیل طلب کئے بغیر مولانا دیندار نے عید کا اعلان کیا اور جب اسی موقع پر ایک دو علماء نے اختلافی نوٹ ظاہر کی تو مولانا صاحب نے کہا کہ اس بندے کو میں بچپن سے جانتا ہوں یہی ایک بندہ پچاس گواہوں کے برابر ہیں ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں جو بھی ایشو ہو اس میں سیاست واضح نطر آتی ہے لیکن ہم جیسے کم علم ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ آخر رمضان اور عید کی چاند پر مفتی منیب صاحب کس قسم کی اور کیوں سیاست کررہے ہیں ۔ کیوں اس ایشو کو پورے ملک کا ایشو سمجھ کر حل نہیں کر رہے ۔ میرے خیال میں اگر مفتی صاحب پورے ملک سے شہادتیں طلب کرکے اپنا کوئی فیصلہ سنا دیں تو اس سے ان کی عزت مزید بڑھ جائے گی ۔ اب اس سال کے رمضان کو ہی لیجئے واضح طور پر جن لوگوں نے مفتی منیب کے نقش قدم پر قدم رکھا ہے اس کا ایک روزہ قضا ہوچکا ہے کیونکہ چاند کی ساخت سے واضح ہے کہ یہ اج کا نہیں بلکہ دو دن کا چاند ہے ۔ اب اس پر سیاست کے اندر کی کہانی خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔
ویسے تو ہم نے شکر ہے جس سے ہوش سنبھالا ہے رمضان اور عید کیلئے اپنے ہی مقامی شہادتوں سے استفادہ کیا ہے اور انتہائی سخت حالات میں بھی کسی دوسری طرف نہیں دیکھا ہے ۔ ہمارے ہاں حیدر خیل نامی گاؤں میں رویت ہلال کے مخصوص بندے ہیں جن کے نام میں یہاں نہیں لکھنا چاہتا ہوں لیکن ان بندوں نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری لگائی ہے کہ رمضان اور عید کے علاوہ بھی باقی سارا سال چاند دیکھتے رہتے ہیں ان کے اپنے مخصوص مقامات ہیں جہاں سے وہ چاند دیکھتے رہتے ہیں اس لئے انہیں عام لوگوں کی نسبت کافی اسانی ہو تی ہے اور انتہائی باریک چاند کو بھی اسانی سے دیکھ سکتے ہیں ۔ ہمارا یہ معمول ہے کہ اییسے مواقع پر ہم انہی کی طرف دیکھتے ہیں اور ان کی گواہی کو مقامی علماء کی کمیٹی معتبر مانتی ہے اس لئے کہ یہ بندے ہمارے ہی درمیان پلے بڑھے ہیں اور ان کی صداقت پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح یہاں بھی ہمیں نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ ہمارے تو صرف حیدر خیل کے یہ پانچ، چھ جوان ہی نہیں ہر گاؤں کی سطح پر لوگ چاند دیکھتے رہتے ہیں لیکن ان کی گواہی صرف اپنے ہی علاقے تک محدود رہتی ہے۔ مرکزی سطح پر کیوں ان لوگوں کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کیا جاتا یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب اسلام اباد کے مقتدر حلقے اور یا پھر مفتی منیب الرحمن صاحب ہی دے سکتے ہیں کہ یا تو ان کو ہمارے گواہوں کے کردار اور ایمان پر شک ہے اور یا پھر اس سے شاید ان کے مفادات کو زِک پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ تاہم پورے ملک کو دو حصوں میں بانٹنے کی روایت کو ختم کرنا چنداں مشکل مسئلہ نہیں اگر ہمیں بھی ایسے ہی مسلمان سمجھا جائے جیسے یہ لوگ خود کو سمجھتے ہیں تو ہم بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہیں ۔
6 تبصرے “رویت ہلال کیلئےحیدرخیلوں کی بلا معاوضہ خدمات ۔۔۔ احسان داوڑ”