گلگت بلتستان کے عوام اپنے مطالبات تسلیم کرنے کیلئےاحتجاج پر اُتر آئے، افتاب مہمند

پشار ( افتاب مہمند ) گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں سینکڑوں مظاہرین کی جانب سے دیا جانے والا دھرنا تسلسل سے جاری ہے۔ مظاہرین کے مطابق وہ اس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک 2011ء میں فسادات اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات میں قید عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماء بابا جان اور ان کے 14 دیگر ساتھیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔ بابا جان اور دیگر سیاسی کارکنوں کو 2011ء میں عطاء آباد جھیل کے متاثرین کی جانب سے کئے گئے اجتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور بعدازاں عدالت نے گرفتار ہونے والے افراد کو 40 سال سے نوے سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔ بابا جان و دیگر کارکنوں کی رہائی کے حوالے سے گلگت بلتستان میں احتجاج اور مظاہرے ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں تاہم اس موقع پر یہ احتجاج اس لئے بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ خطے میں 15 نومبر کو عام انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے جبکہ پاکستانی حکام کی جانب سے اس خطے کو صوبے کی حیثیت دینے کی تجویز کے حوالے سے خبریں بھی زیر گردش ہیں۔ ہنزہ میں جاری دھرنا سردی کے باوجود 24 گھنٹے جاری رہتا ہے جبکہ اس میں گرفتار کارکنوں کے اہلخانہ سمیت علاقہ مکین اور بچے بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ مظاہرین کے مطابق وہ دھرنا اس وقت تک ختم نہیں کریں گے جب تک تمام قیدیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا انکا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس دھرنے کا دائرہ کار گلگت بلتستان کے دیگر شہروں تک بڑھایا جائے گا۔ بابا جان اور ان کے دیگر 18 ساتھیوں کو عدالت نے فرقہ وارانہ فسادات کا مرتکب بھی قرار دیا تھا۔ ان مقدمات میں مجموعی طور پر 18 افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ جن میں سے دو کے مقدمات ابھی بھی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں زیر سماعت ہیں جبکہ ایک مجرم عامر خان کو شدید بیمار ہونے کی وجہ سے دو سال قبل ضمانت دی گئی تھی جس کے بعد وہ وفات پا گیا۔
سزا کے خلاف گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدالت اپیلٹ کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست 2016ء سے زیر سماعت ہے۔جہاں عطا آباد جھیل بننے کے باعث کئی لوگ بے گھر ہوئے تھے تو اس وقت گلگت بلتستان کی حکومت نے ان بے گھر متاثرین کے لئے امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا مگر ان میں سے کچھ متاثرین کا دعویٰ تھا کہ انہیں حکومت کی جانب سے اعلان کردہ امدادی پیکج موصول نہیں ہوا۔ حکومت کی جانب سے مطالبے پر توجہ نہ دینے کے باعث متاثرین نے اس وقت کے گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کی آمد پر شاہراہ قراقرم کو بلاک کیا تھا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق 2011ء میں ہونیوالے اس عوامی احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا۔ پولیس کے مطابق مظاہرین کی فائرنگ سے احتجاج میں شریک ایک باپ اور بیٹا جاں بحق ہوئے تاہم مظاہرین کا دعویٰ تھا کہ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔ باپ بیٹا کی ہلاکت کے بعد وادی ہنزہ میں بڑے پیمانے پر ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور اس دوران عوامی املاک کو نذرِ آتش کیا گیا۔ ان مظاہروں کا اہتمام عوامی ورکر پارٹی کی اپیل پر کیا گیا جبکہ اس پرتشدد احتجاج کی قیادت بابا جان اور ان کے 14 ساتھیوں نے کی تھی۔ مظاہروں کے بعد ہنزہ پولیس نے بابا جان اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے انکے خلاف دہشتگردی سمیت دیگر سنگین جرائم کی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے۔

ابتدائی طور پر یہ مقدمات دہشتگردی کی عدالت میں چلے۔ 2014ء میں ملزمان میں سے پانچ افراد کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری جبکہ بابا جان سمیت دیگر کارکنوں کو 40 سال سے لے کر 60 سال تک قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ 2015ء میں بابا جان نے جیل سے گلگت بلتستان کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ وہ 5200 ووٹ حاصل کر کے دوسری پوزیشن پر رہے تھے جبکہ جیتنے والے امیدوار نے چھ ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے۔پھر انکی جانب سے عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف گلگت بلتستان کی چیف کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ 2015ء کے آخر میں بابا جان سمیت تمام افراد کو بری کر دیا گیا تاہم حکومت نے چیف کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیلٹ کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ 2016ء میں بابا جان اور ان کے ساتھی رہا ہوئے اور ہنزہ سے بعض وجوہات کی بنا پر نشست خالی ہوئی تو بابا جان نے ایک بار پر ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جو کہ الیکشن کمیشن نے قبول کر لئے تاہم اپیلٹ کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کیخلاف سوموٹو ایکشن لینے کے علاوہ حکومت کی جانب سے دائر کردہ اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کی اپیلوں کو قبول کیا اور تمام کے تمام پندرہ افراد کو مجرم قرار دے دیا۔ اپیلٹ کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل 2016ء سے زیر سماعت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اپیلٹ کورٹ کا فورم مکمل نہیں ہے۔ بابا جان کی والدہ نے اقوام متحدہ سے بھی اپنے بیٹے اور اس کے ساتھیوں کی رہائی کے لئے اپیل کر رکھی ہے۔ بابا جان کے علاوہ سلیمان کریم بھی ان افراد میں شامل ہیں جو قید بامشقت کاٹ رہے ہیں۔ عدالت نے انہیں جرم ثابت ہونے پر 40 سال قید کی سزا سنائی تھی۔گرفتار افراد کی رہائی کے لئے یہ احتجاج پہلی مرتبہ نہیں بلکہ ایسا ہی ایک احتجاج گزشتہ انتخابات کے موقع پر بھی ہوا تھا۔
اس حالیہ احتجاج میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین شریک ہیں۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ بابا جان نے ایک مرتبہ پھر ان انتخابات میں حصے لینے کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مقامی انتظامیہ کا مظاہرین سے بات چیت کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم ابھی تک احتجاج ختم کروانے کیلئے دونوں کسی بھی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں