رویت ہلال پر ریاست،علماء اور عوام کا اتفاق۔۔۔ایک معرکہ جوبالآخر سر ہوا۔۔۔ تحریر: عماد سرحدی

خصوصی تحریر : عماد سرحدی ۔۔۔
پشاور میں سالوں بعد دو عیدوں اور روزوں کی روایت دم توڑنے لگی، خیبر پختونوا سے رویت ہلال کی آنے والی صداؤں کو علمائے کرام کے اتفاق نے اس بار اس اتحاد سے ناکام بنادیا جس کی ضرورت کئی دہائیوں سے محسوس کی جارہی تھی، تحریک انصاف حکومت کی کوششوں سے پہلی بار پورے ملک میں ایک ہی دن روزہ اور انشاء اللہ ایک ہی دن عید منانے پر اتفاق اس کمیٹی کے قیام سے ہوا جس کے لئے حکومت اور علمائے کرام نے مشترکہ کوششیں کرتے ہوئے مولانا عبد الخبیر آزاد کو اس اہم فریضہ کی آدائیگی کیلئے کمیٹی کا سربراہ نامزد کیا، مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبد الخبیر آزاد کی سربراہی میں علمائے کرام نے اتحاد امت کے اس اہم ترین فریضے کیلئے ملک کے چاروں صوبوں میں مشاورت کا سلسلہ شروع کیا اور آج اس کا نتیجہ نکلا ہے کہ پشاور کے عوام نے بھی آخرکار اپنی حکومت کے ہم آواز ہوتے ہوئے ایک ہی دن روزہ پر اتفاق کرہی لیا، مفتی شہا ب الدین پوپلزئی کی سربراہی میں قائم مقامی رویت ہلال کمیٹی نے کمال اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بھائی چارے کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا ہے جس کی ملک وقوم کو آج کے دور میں سخت ترین ضرورت تھی،پشاور میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس بلانے میں شہر کی ممتاز مذہبی شخصیات نے بھی اپنا کردار ادا کیا جن میں ملک طارق اعوان جیسی قدآور شخصیات نے بھی اپناحصہ پوری دیانتداری سے ڈالا ،پشاور کے عوام ہر سال دو روزوں کی روایت کے باعث دو حصوں میں بٹ کر مسلمانوں کی تفریق کا نشان بنتے آرہے ہیں تووہیں پرملک بھر میں ہونے والی جگ ہنسائی کا باعث بھی بن رہے تھے،خیبر پختونخوا میں آنے والی اس تبدیلی کا سہرا بلاشبہ حکومت پاکستان کے بروقت فیصلوں کو جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ وزارت سائنس وٹیکنالوجی کی سربراہی کرنیوالے چوہدری فواد حسین بھی تعریف کے مستحق ہیں جنہوں نے سیاسی محاذآرائی میں شریر لاؤڈ اسپیکر کا کردار تو آدا کیا ہے لیکن کم سے کم اس معاملے میں پوری سنجیدگی دکھا کر قوم کو ایک نکتہ ارتکاز پر لاکھڑا کیا ہے،ہم جانتے ہیں کہ حکومت کے وسائل لامحدود ہوتے ہیں اور کم سے کم مقامی کمیٹیوں کے مقابلے میں ریاست کا دبدبہ اور تشخص کلاس کے ایسے مانیٹر کا ہوتا ہے جو سب کو خاموش کرکے انتشار پھیلانے والی آوازوں کو دبا سکے،یہی فیصلہ حکومت نے کیا جس کے نتیجے میں رویت ہلال کمیٹی کا مینڈیٹ خود بخود سامنے آگیا جب انہوں نے پوری مشاورت اور ایمانداری کے تحت اپنے دینی فرض کو ریاست کی چھتری میں پورا کیا ،خیبر پختونخوا کے عوام کیلئے خوشی کی خبر یہ بھی ہے کہ پہلی بار اتنے سالوں بعد رویت ہلال کیلئے پائے جانیوالے اضطراب کو دلیل اور تجویز کے ساتھ قائل کرکے ریاست کی عملداری کی داغ بیل ڈالی گئی ،آخری بات یہ کہ روزہ اور عید خالصتامذہبی ایام ہیں اور ان پر اتفاق سے کریڈٹ آپ کو اور مجھے نہیں ،ہر اس کلمہ گو کو جاتا ہے جس نے اس دیرینہ تنازعہ کا تصفیہ کرنے میں اپنا کردار مذہبی فریضہ سمجھ کر ادا کیا اور ساری پاکستانی قوم کو یہ خوشی کا موقع فراہم کیا،امید ہے کہ روزہ کی طرح عید کے مبارک اور خوشی کے ایام بھی علمائے کرام کی باہمی مشاورت سے طے کئے جائیں گے اوراس تناظر میں مستقبل میں سائنس وٹیکنالوجی کی وزارت سے بھی مدد لی جاتی رہے تو روزہ خیبر پختونخوا میں نہیں سارے پاکستان میں ایک ہوگا۔

انشاء اللہ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں