سپینہ تنگی کے ’شہید‘ قاضی فضل قادر بنوں کے وہ رہنماء جن کی قبر کو بھی برطانوی سرکار نے قید رکھا تھا۔
برطانوی اہلکاروں کو قاضی فضل قادر پر اس قدر غصہ تھا کہ ان کی میت بھی ورثاء کے حوالے نہیں کی گئی ۔
یہ کہانی ہے آج سے 90 برس قبل کے برطانوی دور حکومت میں اس وقت کے صوبہ سرحد اور آج کے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے علاقے سپینہ تنگی کی جہاں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا تھا۔
یوں تو پختون سرزمین پر کئی تحاریک چلی ہیں اورتاریخ میں بڑے بڑے واقعات پیش آئے ہیں۔ ان واقعات میں سے ایک بنوں کے علاقے سپینہ تنگی واقعہ بھی ان تحریکوں کا ہی تسلسل تھا جو برطانوی راج کے خلاف شروع کی گئی تھیں اور شمال مغربی سرحدی صوبے کے مختلف علاقوں سے یہ تحریکیں 1929ء کے بعد شروع ہو گئی تھیں۔
بنوں کے قریب سپینہ تنگی میں بڑی تعداد میں لوگ جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ مظاہروں کا یہ سلسلہ صوبے کے مختلف علاقوں میں جاری تھا، لوگ خدائی خدمتگار تحریک کے بینر تلے احتجاج کر رہے تھے۔ بنوں کے سپینہ تنگی سے پہلے کرک میں ایک مظاہرہ کیا گیا اور اس کے بعد سپینہ تنگی میں 24 اگست کو مظاہرے کا اعلان تھا۔
انگریز سرکار کی جانب سے ان مظاہروں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس احتجاج کی قیادت مقامی رہنماء قاضی فضل قادر کر رہے تھے۔
سپینہ تنگی سے پہلے اس علاقے کے دیگر مقامات پر جلسے منعقد کئے گئے تھے اور وہ سب پر امن رہے تھے۔ سپینہ تنگی میں بھی لوگ پر امن تھے جبکہ مقامی انتظامیہ ان سے اسلحہ لے لیا تھا۔ ملنے والی تصاویر میں مقامی افراد وہ جگہ دکھا رہے ہیں جہاں سپینہ تنگی کے جلسے کا سٹیج تیار کیا گیا تھا۔ قاضی فضل قادر اس علاقے کی ایک معروف شخصیت تھے جن کے پیروکار صرف بنوں ہی نہیں قریبی علاقوں میں بھی تھے۔
مظاہرے کے دوران انگریز کیپٹن ایشرافٹ وہاں پہنچا اور سٹیج پر قاضی فضل قادر سے بات چیت شروع کی جس کے دوران دونوں میں تلخ کلامی ہوئی اور کیپٹن ایشرافٹ نے ان پر فائر کر دیا۔
بتایا جاتا ہے کہ ایک نوجوان احمد خان چندن وہاں موجود تھا جس کے پاس درانتی تھی، اس نے انگریز کیپٹن پر حملہ کر دیا اس پر سرکار کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے اس واقعے پر وہاں موجود لوگ اشتعال میں آئے لیکن ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اس لئے سرکار کا کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا، قاضی فضل قادر کو زخمی حالت میں گھسیٹ کر لے جایا گیا جہاں وہ ڈومیل پولیس تھانے میں دم توڑ گئے مگر برطانوی اہلکار اتنے طیش میں تھے کہ انہوں نے ان کی میت بھی ورثاء کے حوالے نہیں کی بلکہ جیل کے اندر انہیں دفن کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان پر مقدمہ چلایا گیا اور انہیں قید کی سزا سنائی گئی۔مرنے کے بعد کسی کو قید کی سزا سنانے کا یہ انوکھا واقعہ تھا۔ اس سزا پر عملدرآمد کے لئے ان کی قبر جیل کے اندر بنائی گئی۔ اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ قبر جیل میں چکی کے اندر بنائی گئی اور اس کے ارد گرد زنجیریں باندھی گئیں تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ قیدی ہے۔ اس واقعہ میں مرنیوالوں کے حوالے سے مختلف خبریں سامنے آئیں ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ میں 70 سے 80 افراد تک جاں بحق اور 50 سے زیادہ زخمی ہوئے جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق مرنیوالوں کی تعداد 200 کے قریب تھی۔
سینٹرل جیل بنوں شہر کے اندر واقع ہے اور اس کی عمارت بھی بہت قدیم تھی ۔۔ جمعیت علما اسلام سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم خان درانی کے دور میں 2004ء میں بنوں جیل کی نئی عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ پرانی جیل منہدم کر کے وہاں اب قاضی فضل قادر پارک بنا دیا گیا ہے اور ان کی قبر کو ماربل سے پختہ کیا گیا ہے لیکن قبر کے گرد زنجیریں اب بھی موجود ہیں۔ اس واقعے کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ اہالیان بنوں اس واقعہ کو آج بھی یاد رکھے ہوئے ہیں، جسے مختلف مواقع پر تازہ کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ منفرد سزا پانیوالے اور اس وقت کے سماجی رہنماء کو اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے جو بھی یہاں آتا ہے اور زنجیروں میں جکڑی قبر کو دیکھتا ہے تو اس واقعہ سے ضرور باخبر ہوتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ زنجیروں میں جکڑی اس قبر کی سزا کب ختم ہو گی؟