ایک رپورٹر کی حیثیت سے اسلام آباد میں کون کیا کرکے کہاں پہنچا یہ معلومات رکھنا سب سے آسان کام ہوتا ہے اور پھر اجمل وزیر تو اسی علاقہ کے ہیں اس لئیے کئی نہیں بہت ساری باتیں ہیں جو دیگر کی طرح میرے بھی علم میں ہیں۔ ان کو مشیر اطلاعات لگوانے میں میڈیا سے ہی تعلق رکھنے والی اسلام آباد کی ایک اہم شخصیت کا ہاتھ تھا۔ گو کہ پھر گنہگار آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب اجمل وزیر اسی کی کال اٹینڈ نہیں کرتے تھے۔ ظاہر ہے اس شخصیت کے بھی چاہنے والے تھے اور پھر ایک حقیقت یہ بھی کہ چڑھانے والوں کے ہاتھ میں اتارنے والی کنجی تیار ہوتی ہے۔ وہی اس بچارے کے ساتھ بھی ہوا۔
حقیقت تو یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید دو ارب روپے کا چونا پختونخوا کے اسی شعبہ کو لگا کر آج بھی سینہ تھانے کھڑے ہیں۔اس پر اس وقت ڈان میں ایک تفصیلی خبر چھپی لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ 2016ء میں اس مداری نے سافٹ امیج کے نام پر پختونخوا میں ڈکیتی کی لیکن اس سرکار میں اربوں سے کرپشن بڑھ جائے تو “ٹائیگر”کا خطاب ملتا ہے ورنہ بدنامی آپ کے نصیب میں نکلے گی۔ آپ کو یاد تو ہوگا جب ایک وزیر معدینیات نے جہانگیر ترین کی ڈکیتی کو روکنے کی کوشش کی تو اسے چور کہہ کر حوالات میں ڈالا گیا۔ یہ حرکت ویسے ایک اور وزیر نے بھی کی تھی لیکن وہ سیانا تھا جلد ڈاکو بنا اور آج تک پھر کسی کو ہمت نہیں ہوئی اس پر ہاتھ ڈالنے کی۔ چونکہ اجمل وزیر قبائیلی تھا بچارہ سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس سے کہاں واقف تھا پھر لگتا ہے ریاضی میں کمزور بھی ہے اس لیئے مارے گئے۔
میں نے شروع میں عرض کیا کہ میں اجمل وزیر کے ماضی کے حوالہ سے کوئی بات نہیں کروں گا۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میرے دوست تھے کیونکہ آڈیو میں انہوں نے اپنے صحافی دوستوں کو جس لقب سے یاد کیا ہے وہ ہماری محدود صحافی دنیا کے ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔گو کہ کچھ لوگوں کا تو لوگو ہوتا ہے”عزت آنی جانی چیز ہے، اس کو زیادہ سنجیدہ نہیں لینا چاہیئے!” لیکن ہیں ابھی کچھ لوگ جو اگر اجمل وزیر کے دوست ہوتے تو یقیناً دل میں ضرور برا مانتے۔ اس کو میں بے وقوفی نہ کہوں، ناتجربہ کاری نہ کہوں، طفلانہ نہ کہوں تو کیا کہوں کہ جب اجمل وزیر یہ کہتا ہے کہ میڈیا میرے قابو میں ہے۔ میں نے میڈیا میں تھوڑا بہت کام کیا ہے یقین مانیئے کہ پشاور میں اگر کسی جونئیر کرائم رپورٹر نے بھی ضد پکڑ لی ٹکرانے کی تو وہ کسی کے قابو نہیں آ سکتا پھر کجا وہ کرائم رپورٹر یا کسی بھی بیٹ کا رپورٹر یا کیمرہ مین جس نے پشاور میں طویل عرصہ تک کام کیا ہو اس کے بارے میں اتنے یقین سے کہنا کہ میڈیا میرے قابو میں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری میڈیا کے اہلکار تک اس کے قابو میں نہیں تھے جنہوں نے اس ٹیپ کے ذریعہ اسے ایک ہلکی سی جھلک دکھائی۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اگر اجمل وزیر شعبہ اطلاعات کے سینکڑوں ملازمین کی ڈاؤن سائیزنگ کرتے، اطلاعات و ثقافت کی عمارتیں، ریڈیو پختونخوا کی عمارت اور سازو سامان، نشتر ہال اور اس طرح کے دیگر اثاثے بیچ کر اربوں کا مال ڈاکہ زنی سے لوٹ لیتے تو آج وہ بھی “ٹائیگر” کہلائے جاتے۔ ویسے مجھے مشورہ دینے کی ضرورت بھی نہیں اس کے اپنے صحافی ساتھی ہیں اس لئیے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اسے اس راستے کا پتا نہیں تھا۔ لیکن آڈیو میں لگتا ہے وہ “ان” سے بھی ناراض ہیں اب دو ہی باتیں ہیں یا تو اجمل وزیر نے ڈکیتی کرنے میں جلدی کی اور اس طرح اس کی ڈکیتی، ڈکیتی کے معیار پر پورا نہیں اتری اور یا اس نے دیر کر دی ڈکیتی کے لئیے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ قیاس ہے کہ جلدی کی اور ابھی کم از کم اسے سرکاری صحافیوں کو سمجھ لینا چاہیئے تھا۔ اس لئیے بے ساختہ جی کہہ اٹھتا ہے:
حسرت ان غنچوں پہ
جو بن کلے مرجھا گئے
یہ بھی پڑھئے: خیبرپختونخواکےمشیراطلاعات اجمل وزیراشتہارات میں کمیشن کا معاملہ،آڈیوٹیپ لیک ہونےکےبعد عہدےسےفارغ
“کیا اجمل وزیر کو سرکاری صحافیوں نے ہٹایا؟ ۔۔۔ تحریر: فخر کاکاخیل” ایک تبصرہ