کسی زمانے میں یا شاید اب بھی شادی کی دھوم دھام اور خرچے میں ڈاکٹر یا انجنئیر ہونے کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ سرکار کے رشتہ میں بھی لگ بھگ ایسے ہی معاملات طےہوتے ہیں لیکن جہیز لینے کا عمل رشتہ کے بعد شروع ہوتا ہے۔مثال کے طور پر سول وملٹری سے تعلق رکھنے والے افسران کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سول ملٹری بیوروکریسی سے ہی رشتہ جوڑے رکھیں۔ یہ والدین بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اس برس ان کا سپوت سی ایس ایس یا آئی ایس ایس بی کے امتحانات میں اترنے والا ہے۔ ایک بار امتحان پاس کرکے سیٹ پکی کر لی تو پھر ستے خیراں۔ زندگی بن جائے گی صرف اس بچے کی نہیں بلکہ اگلی نسل کی بھی۔ کیونکہ یہ رشتہ فرد کا حکمرانی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک بار رشتہ ہو جائے تو پھر جہیز کا مسئلہ نہیں رہتا۔ رشتہ کے بعد اسے گھر کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں اور یوں یہ اپنی اپنی پوزیشن کے لحاظ سے گھر کے مالک بن جاتے ہیں۔ پھر جہیز کی وصولی شروع ہوتی ہے۔ ملٹری بیوروکریسی کے بارے میں تو بہت لکھا جاچکا ہے بلکہ کتابیں تک لکھی گئی ہیں لیکن سول بیورکریٹ کے جہیز والے معاملات کے دوران ملازمت کتنا جہیز بناتے ہیں کبھی پڑھنے کو نہیں ملا۔ شائداس کی وجہ یہ ہو کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پوری کتاب لکھ دیتے ہیں جس میں وہ اپنے علاوہ سب کے جہیز وصولی کا ذکر کرتے ہیں۔ میں نے کئی رٹائیرڈ سول بیوروکریٹس کی کتابیں پڑھی ہیں۔ اکثریت سول بیورکریٹس کچرا ملٹری بیوروکریٹس پر ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ خود ہی کہتے ہیں کہ وہی معاملات چلا رہے تھے اور ملٹری ڈکٹیٹرز کو راستے بتا رہے تھےلیکن جہاں ان کی نہیں مانی تو وطن عزیز پر بربادی آئی۔ کمال کی بات یہ کہ کوئی ان سے پوچھے کہ میاں اس وقت کیوں غیرت نہیں دکھائی استعفی کیوں نہیں دیا، یہ سب کچھ کیوں عوام کو نہیں بتایا اس پر جواب میں خود کو اللہ کا برگزیدہ بندہ اور معمولی سا سرکاری ملازم ظاہر کرکے کنی کترا جاتے ہیں۔حقیقتا انہیں اس وقت جہیز کی ہی فکر ہوتی ہے۔صحیح صورتحال جاننے کے لئیے ہم نے ان ڈکٹیٹرز کی بھی کتابیں پڑھنے کی کوشش کی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بھی سول بیوروکریٹس نے ہی لکھی تھیں اب بندہ سچ جانے تو کس سے جانے۔زمینی حقائق جاننے ہوں تو کسی بھی بیوروکریٹ کی تنخواہ دیکھ لو اور ریٹائرمنٹ کے بعد اس کے وصول شدہ جہیز کا حجم اور مالیت اپ کو صاف پتا چل جائے گا۔شائد یہی حجم اور مالیت دیکھ کر کئی ڈاکٹرز، انجنیئرز بلکہ ملٹری سے جڑے افسروں نے بھی قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر سول بیوروکریسی سے اپنا رشتہ جوڑا ہوا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں مطلب جب فاٹا ہوا کرتا تھا اس وقت یہ عام کہا جاتا تھا کہ پولیٹیکل ایجنٹ علاقہ میں تو خالی ہاتھ آتا تھا لیکن واپسی پر ٹرکوں کے ٹرک بھر کر جہیز وصول کرکے چلا جاتا تھا۔ بیوروکریسی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ایک بار مناسب جہیز مل جائے تو پھررشتہ داریاں بھی بڑے جہیز والوں میں قائم کر دیتے ہیں۔ عام رشتوں میں تو جہیز لڑکی والوں کو ہی دینا پڑتا ہے لیکن بیوروکریسی اپنا جہیز عوام سے بلکہ طاقتوروں سے بھی وصول کرتی ہے۔ کیا زمانے تھے جب فرنگی دور میں انہیں بابو پکارا جاتا تھا اور یہ راج کے کافی دلارے ہوا کرتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے پرانی فلموں میں ان کے لئیے رومانویت پائی جاتی تھی۔جب کوئی شہری بابو گاؤں کی کسی بھولی بھالی معصوم لڑکی کی معصومیت کا فائدہ اٹھا کر اسے چھوڑ دیتا تھا تو وہ لڑکی انسوں بہا بہا کر اس کی کہانیاں آنے والوں کو سناتی۔حالانکہ یہی معصوم لڑکی گاؤں میں اس کے سامنے ناچتے ناچتے نہیں تھکتی۔اب تو گاؤں میں اٹھارویں ترمیم کا شور ہے کہ گھر میں وسائل کی تقسیم کس طرح ہو۔ ایسے لگتا ہے کہ وفاق کے بابو جہیز کے چکر میں اس کے پیچھے پڑ چکے ہیں۔ خدا جانے یہ جہیز کی لعنت کب ختم ہو گی۔ فی الوقت کہنے کو تو جہیز کو لعنت ہی سمجھا جا رہا ہے لیکن اگر کم ہو۔
ویسے میں اور آپ کیوں ماسیوں کی طرح پرائے جہیز کے حساب کتاب میں پڑے ہیں۔سنا ہے ارطغرل کے نام سے بڑا سوہنڑا ڈرامہ آرہا ہے ٹی وی پر آج کل۔۔۔اپ وہ دیکھیئے، ماضی کو یاد کیجئیے اور سو جائیے۔
یہ بھی پڑھئے : قصہ ملنگ فخرالدین کا! سید فخر کاکاخیل
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ادارہ