” آپ ہیں کون؟ ہم آپ کو گاجر کی طرح کھالیں گے”، ہم نظریاتی لوگ ہیں، آپ ہمارے باپ دادا کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں، ہم آپ کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دیں گے” گرج دار آواز میں اکرم درانی جب اسمبلی فلور پر اس قسم کی تقریر کرتے ہیں تو پورے ہال پر سناٹا چھا جاتا ہے، سخت جملہ سن کر سامنے حکومتی ارکان کے کان سرخ ہوجاتے ہیں اور پریس گیلری کے رپورٹرز بھی ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں، جے یو آئی کے آزادی مارچ کے دنوں میں اکرم درانی سخت لہجہ اپناتے تو لگتا کہ وہ شاید کسی اشارے پر ایسا کررہے ہیں مگر جب آزادی مارچ اپنے انجام تک پہنچا تو اکرم درانی اپنے روایتی روپ سے باہر نہیں نکلے اور خیبر پختونخوا حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا سلسلہ کچھ اس انداز میں جاری رکھا کہ سپیکر، اسمبلی انتظامیہ اور حکومتی بنچوں کے ارکان سر پکڑ کر رہ گئے، اسمبلی کے ہر اجلاس کا فیصلہ اپوزیشن چیمبر میں ہونے لگا تو اسمبلی اجلاسوں پر اٹھنے والے لاکھوں روپے کے اخراجات کے بارے میں بھی سوال اٹھائے جانے لگے، اجلاس شروع ہوتا اور تلاوت کے فوراً بعد مچھلی منڈی کا منظر دکھائی دینے لگتا، اس دوران سپیکر مشتاق احمد غنی پر جانبداری کے الزامات عائد کئے گئے اور اسمبلی اجلاس نہ چلنے دینے کا اعلان کیا گیا۔ اسی دوران اصل مسلہ یعنی ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کا معاملہ بھی اٹھایا جاتا رہا، وزیر اعلیٰ ہائوس کے سامنے متعدد بار دھرنے دئیے گئے تب حکومت کو بھی احساس ہوا کہ اپوزیشن یوں آسانی سے ٹلنے والی نہیں۔ اس معاملے کی سنگینی پہلے بھی بڑھی تھی، تب سپیکر مشتاق غنی نے مصالحانہ کردار ادا کرتے ہوئے اپنے ہاں سپیکر ہائوس میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کا اہتمام کیا تھا، خود وزیر اعلیٰ محمود خان اور اکرم درانی کی قیادت میں فریقین آمنے سامنے بیٹھے تو ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کا معاہدہ طے پا گیا،
جس کے تحت 65 فیصد حصہ حکومتی ایم پی ایز اور 35 فیصد اپوزیشن کو دینے پر اتفاق کیا گیا، بعد میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس معاہدے پر عملدر آمد نہیں کیا گیا تو اپوزیشن ایک بار پھر میدان میں نکل آئی اور اسمبلی کے متعدد اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگئے، اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار حکومت اور اپوزیشن اراکین نے ایک دوسرے کو دھکے دئیے حتیٰ کہ اپوزیشن کے بزرگ ارکان پر ہاتھ تک اٹھائے گئے، ہر اجلاس میں ادھر اپوزیشن ہتھوڑوں سے ڈیسک بجانا شروع کرتی تو دوسری جانب قانون سازی کا عمل بھی یکطرفہ طور پر جاری رکھا جاتا، تاریخ میں پہلی مرتبہ اپوزیشن کی نگہت اورکزئی کو سپیکر کی کرسی پر قبضہ جماتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کورونا وائرس نے انٹری ماری، ہر چیز جام ہوکر رہ گئی، اس دوران حکومت اور اپوزیشن کے مابین برف پگھلنے کا آغاز وہاں سے ہوا جب وزیر اعلیٰ محمود خان نے اپوزیشن کے پارلیمانی لیڈرز کو فون کئے اور کورونا سے نمٹنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کا پیغام دیا، محمود خان کا اکرم درانی سے بھی ٹیلیفونک رابطہ ہوا اور پھر معاملات بہتری کی جانب بڑھنے لگے۔ گویا “سماجی فاصلوں” کے موسم میں “سیاسی فاصلے” کم کرنے کا آغاز کیا گیا، اگلا مرحلہ اپوزیشن کو منانے کا تھا، سو یہ ذمہ داری ایک بار پھر سپیکر مشتاق غنی نے اپنے سر لے لی اور وزیر اعلیٰ محمود خان کو اعتماد میں لیکر دو صوبائی وزرا وزیر قانون و پارلیمانی امور سلطان محمد خان اور وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کو لیکر اکرم درانی کی رہائش گاہ پہنچ گئے جہاں اسمبلی اجلاس کے معاملے پر تو معاملات طے پاگئے مگر اکرم درانی اور ان کے ساتھی ایک بار پھر مصر ہوئے کہ جب تک وزیر اعلیٰ محمود خان خان خود بڑے پن کا مظاہرہ نہیں کریں گے معاملات کلی طور پر حل نہ سمجھے جائیں۔ اکرم درانی کی رہائش گاہ پر راقم نے ترقیاتی فنڈز پر عملدرآمد کا سوال داغا تو اکرم درانی نے نفی میں سر ہلایا اور مشتاق غنی نے لاعلمی کا اظہار کیا، شاید اسی سوال کا ڈر تھا کہ وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا مذاکرات کے فوراً بعد پتلی گلی سے نکل گئے۔
اکرم درانی نے جہاں وزیر اعلیٰ ہائوس میں محمود خان سے ملنے سے انکار کیا وہاں یہ بھی مناسب نہ سمجھا کہ وزیر اعلیٰ خود ان کی رہائش گاہ آجائیں، سو ایک بار پھر تیسری جگہ یعنی سپیکر ہائوس کا انتخاب ہوا۔ سپیکر ہاوس میں اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی وفد کی اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کی سربراہی میں وزیر اعلیٰ محمود خان کے ساتھ ملاقات انتہائی خوش گوار رہی،
اس موقع پر سپیکر مشتاق احمد غنی، مشیر اطلاعات اجمل وزیر، ڈپٹی سپیکر محمود جان بھی موجود تھے۔ اجلاس میں وزیر اعلیٰ محمود خان نے انتہائی خندہ پیشانی سے اپوزیشن کے تحفظات کو سنا اور ان کو یقین دہانی کروائی کہ انکے تمام تحفظات کو دور کیا جائے گا. وزیر اعلیٰ محمود خان نے ایک حکومتی اور ایک اپوزیشن کی سطح پر کمیٹیاں بنانے کی تجویز دی جو روزمرہ کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ دار ہوں گی جبکہ اعلیٰ سطح کے مسائل وزیرِاعلیٰ خود دیکھیں گے. یہ بھی طے پایا کہ صوبے کے وسائل کی تقسیم اور آنے والے بجٹ پر اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے گا. اپوزیشن رہنمائوں نے سپیکر مشتاق غنی اور وزیر اعلیٰ محمود خان کو یقین دہانی کرائی کہ آئندہ ہونے والے اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا اور کسی بھی ناخوشگوار واقع یا معمولی نوک جھونک کی وجہ سے ایوان کا ماحول اور وقار کسی کو بھی مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی.
خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی اس وقت پورے 101 ممبران کی اکثریت کے ساتھ براجمان ہے، 95 اس کے اپنے ارکان ہیں، 4 بلوچستان عوامی پارٹی، ایک آزاد رکن اور ق لیگ کے ایک رکن بھی حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے اور ڈیسک بجاتے نظر آتے ہیں۔
اپوزیشن 44 کی عددی اقلیت کے طور پر ایوان میں موجود ہے جن میں متحدہ مجلس عمل کے 14، جے یوآئی کے 3، جماعت اسلامی کا ایک، اے این پی کے 12، ن لیگ کے 6 ، پی پی پی کے 5 اور آزاد 3 ممبران بھی اپوزیشن کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ ماہ قبل ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے 8 باغی ارکان کے خلاف تحقیقات کے معاملے پر ابھی تک چپ سادھ رکھی ہے، کون تھے وہ باغی ارکان جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا یا مخصوص نشان لگاکر اپنے ووٹ ضائع کردئیے؟ ہر طرف سے خاموشی ہے، مطلب یہ کہ اپوزیشن کی صفوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو صرف باہر باہر سے ڈیسک پر ہتھوڑے مارتے نظر آتے ہیں، پھر ٹف ٹائم دینے والوں کی تعداد اور بھی کم ہو جاتی ہے، بظاہر صرف 44 اپوزیشن ارکان جب 101 کے مقابلے میں ایوان کو سر پر اٹھا لیتے ہیں، بات جرگوں پر آجاتی ہے تو کانوں میں ایک بار پھر یہ آواز گونجنے لگتی ہے۔۔۔۔
” آپ ہیں کون؟ ہم آپ کو گاجر کی طرح کھالیں گے”، ہم نظریاتی لوگ ہیں، آپ ہمارے باپ دادا کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں، ہم آپ کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دیں گے”۔
““ہم آپ کو گاجر کی طرح کھالیں گے” تحریر: فدا عدیل” ایک تبصرہ