عید الضحیٰ کی ہیٹرک، ذمہ داری کس پر عائد ہوگی ؟ احسان داوڑ

ہمارے گاؤں کا ایک حصہ دریائے ٹوچی کے اُ س پار اباد ہے ۔ ایک دفعہ دریائے ٹوچی میں شدید طغیانی ائی تھی کوئی ار یا پار نہیں جا سکتا تھا ۔ اس زمانے میں کمیونیکیشن کا کوئی طریقہ نہیں تھا ۔ رمضان کی اخری راتوں میں ہمارے ہاں لوگ میرعلی آکر بغیر کسی وجہ کے ہوائی فائرنگ کیا کرتے تھے ۔ دریائے ٹوچی کے اُس پار کے بیچارے لوگوں نے سمجھ لیا کہ فائرنگ عید کی خوشی میں ہورہا ہے جبکہ رویت ہلال کی کوئی گواہی سامنے نہیں ائی اس لئے اگلے دن روزہ رکھا گیا لیکن دریا کے اُس پار کے لوگوں نے عید منائی ۔ اس پر انہیں باقاعدہ ( نوغہ) جُرمانہ کیا گیا ہمارے گاؤں کے سارے لوگوں نے وہاں جا کر ان سے باز پُرس کی ۔ یہ ہماری معاشرتی روابط کی عکاس ایک کہانی ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم اور وہ ایک معاشرے کے افراد ہیں ۔ہمارے دُکھ سُکھ سانجھے ہیں ۔ اس زمانے میں اب کی جیسی نفسانفسی نہیں تھی ۔

اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دفعہ شمالی وزیرستان میں ایک کے بجائے تین تین عید مانئے گئے اور یہی چیز ہمارے معاشرے کے زوال اور انحطاط کی کہانی بزبان خامشی چیخ چیخ کر بیان کر رہی ہے ۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ ہم ایک بکھرے ہوئے معاشرے کا حصہ ہیں بلکہ اس کو معاشرہ کہنا بھی شاید معاشرے کی تعریف پر پورا نہ اُترے ۔ ہم شاید مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے اور اپنی ضد ، انا اور مفادات کے مارے ہوئے لوگ ہیں اور عملاً انسانوں کی ایک جنگل میں رہائش پذیر ہیں جہاں جس کا جو جہ چاہے کرتا پھیرے ۔ ذمہ داری اور اجتماعی ذمہ داری نام کی کوئی شے باقی نہیں رہی ۔ مذہب ، قانون ، اُصول اور اتحاد سب عُنقا ہو چکے ہیں اور مستقبل میں ہر سو گھُپ اندھیرا ہے جہاں اپنے سوا کسی کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا ۔
یہ حال صرف وزیرستان میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ابتری پھیلی ہوئی ہے ۔ اس ابتری کی ذمہ داری ایک طرف اگر حکومت پر عائد ہوتی ہے جو اس بارے میں مکمل طور پر غیر ذمہ داری برت رہی ہے تو دوسرئ طرف ہمارے علماء بھی اس کے لئے ذمہ دار ہیں ۔ کوئی کچھ بھی کہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے علماء بھی اپنی انا اور ضد سے باہر نہیں نکل سکتے 

یہ بھی وزیرستان ہے: وزیرستان میں عید کا احوال ۔۔ سیرو تفریح ۔ ۔ مسائل و مشکلات ۔۔ تحریر: عدنان بیٹنی

شمالی وزیرستان کی بات کی جائے تو یہاں علماء کی ایک گروپ نے ہمیشہ رویت ہلال کمیٹی کی شہادتوں کی بنیاد پرجعمرات کو عید منانے کا اعلان کیا اور کرکے دکھا یا جو کہ سعودی عرب سے بھی ایک دن پہلے منایا گیا ۔ اب یہ تو وہ علماء ہی بہتر طور پر بتا سکے گے کہ ایا امسال سعودی عرب کی عید ایک دن تاخیر سے ہوئی یا حیدرخیل کی گواہوں کی گواہی میں کچھ مسئلہ تھا ۔ پھر علماء کے ایک دوسرے گروہ نے جمعے کو سعودی عرب کے ساتھ عید منانے کا اعلان کیا جس پر بیشتر وزیرستانیوں نے لبیک کہا اور جمعے کو عید الااضحیٰ منایا اور سنت ابراہیمی ادا کی ۔ اور یہ سب کچھ چند کلو میٹر کے علاقے میں ہورہا تھا ۔ کمال کے اُوپر کمال یہ کہ علماء کے ایک تیسرے گروہ نے ہفتے کو حکومتی کمیٹی کی گواہی پر عید منایا اور مسلسل تیسرے روز بھی یہاں نماز عید ادا کیا گیا اور قربانیاں بھی کی گئی ۔ صورتحال کافی حیران کن بھی تھی اور مایوس کن بھی کیونکہ ایک ہی علاقے میں کچھ لوگ تو عید مل رہے تھے ، قربانیاں کی جارہی تھیں اور کچھ لوگ ان سب سے لاتعلق بنے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں بزعم خود پاؤں پسارے بیٹھے ہوئے تھے ۔
کچھ اس طرح کی صورتحال ملکی سطح پربھی دیکھنے میں ائی بلکہ ہمیشہ سے دیکھنے میں اتی رہتی ہے جہاں ملک کے ایک حصے میں عید اور دوسرے میں مکمل خاموشی ، ایک حصے میں رمضان کے روزے جبکہ دوسرے حصے میں عیدگاہ اباد اور عید کے خطبے دئے جا رہے ہیں اور یہی ہماری معاشرتی ابتری کی نشاندہی کرتے ہو ئے حقائق ہیں ۔
اصل میں ان وجوہات کو معلوم کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کی وجہ سے پاکستان ایک بکھرے ہوئے معاشرے کی تصویر پیش کررہا ہے ۔ ہمیں جاننا ہوگا کہ ایا اس کے پیچھے کسی گروہ کے مفادات تو نہیں جو اس کارڈ کو استعمال کرکے یہاں عدم استحکام پھیلانا چاہتے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ایا اس کے پیچھے ہماری نااسودہ خواہشات اور انائیں تو کارفرما نہیں ہیں جنھوں نے ہماری انکھوں پر پردے ڈال رکھے ہیں جس کے باعث ہم حق و سچ اور باطل میں تمیز کرنے کے اہل نہیں رہے اور اپنی انا کی غلامی میں ہر حد کو پار کرنے کیلئے تیار ہو چکے ہیں ۔

یہ بھی پڑھئے : وزیرستان میں پھولوں کا میلہ، جو وقت کی گردو غبار میں دفن ہو چکا ہے۔  تحریر :  احسان داوڑ

ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہمارے علماء کرام کیوں گروہوں میں بٹ گئے ہیں ۔ ان کے پاس موجود دینی اور مذہبی علم انہیں اس بات پر مادہ کیوں نہیں کر رہے کہ اتحاد ملت کی خاطر اپنی انا اور ضد کو ایک طرف رکھ کر ایسے معاملات میں افہام و تفہیم سے کام لیا جائے اور لوگوں میں پیدا شدہ کنفیوژن کو دور کرنے میں ہر ایک مذہبی رہنماء اپنا اپنا کرداربھرپور طریقے سے ادا کریں ۔ سوشل میڈیا اور ریگو لر میڈیا پر لوگ اجکل ان معاملات کے بارے میں مذاق کی حد تک تبصرے کرتے رہتے ہیں جن میں کبھی تو فواد چوہدری اور مفتی منیب کے مباحثوں کے چرچے ہو تے ہیں اور کبھی ہمارے علاقے سے اس سال تین تین عید منانے کے فیصلے کو پوری دنیا میں ھیرت و استعجاب سے دیکھا جا رہاہے ۔ حالانکہ یہ ایسے معاملات نہیں کہ عام لوگ اس کو مذاق کے طور پر لیں لیکن وہ جو پشتو کا ایک مقولہ ہے جس میں کہتے ہیں اگر کلہاڑے کا درخت کا دیا ہوا دستہ نہ ہو تو مجال ہے کہ ایک ٹہنی تک کاٹ سکے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انہی علماء کی اپس میں نااتفاقی اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی روش نے ہی لوگوں کو ان پر انگلیاں اٹھانے کا موقع دیا ہے ۔
عید جیسی بھی تھی ، جتنے بھی تھے ، ایک ، دواور تین گذر گئے اور لوگوں نے قربانیاں بھی کیں ۔ اللہ تعالی انسان کے ارادوں اور نیتوں کو دیکھتا ہے اس لئے ہم یہ نہیں کہتے کہ کونسا گروہ صحیح تھا اور کون غلط لیکن یہ عید ایک سوال ہمارے سامنے چھوڑ گیا کہ اگر ہم سب ایک اللہ کے ماننے والے ہیں اور ایک ہی رسولؐ کے امتی ہیں تو پھر ہمارے اندر یہ تضاد کیوں ہے اور کیوں ہم اتنے اہم معاملے کو اپنی انا اور ضد کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ، ریاست، عوام ، علماء یا پھر کوئی اور جو ہمیں نظر نہیں اتا ۔ اس سوال کا جواب انے والی عید سے قبل تلاش کرنا از حد ضروری ہے ورنہ ہوسکتا ہے کہ ائندہ سال تین کے بجائے چار یا پانچ عید منانے کا موقع بھی دیکھنے کو ملے ۔


احسان داوڑ فری لا نس سینیئر صحافی / رائیٹر ہے ، جو وقتاً فوقتاً دی خیبرٹائمز کیلئے خصوصی تحریریں لکھتے ہی….. رابطہ کیلئے احسان داوڑ کا ای میل ایڈریس : Ihsan.dawar1@gmail.com

عید الضحیٰ کی ہیٹرک، ذمہ داری کس پر عائد ہوگی ؟ احسان داوڑ” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں