علماء ھند و آزادی ھند ۔۔۔ خصوصی تحریر: ایمل صابر شاہ

علماء ھند و آزادی ھند
خصوصی تحریر: ایمل صابر شاہ

یہ ایک آفاقی قانون ہے کہ جب کسی ملک اور ملت میں اتحاد اور اتفاق کا مادہ مفقود ہو جاتا ہے قوم کے سربراہان اور امراء میں زر، زن زمین کی حرص و ہوس کا مادہ بڑھ جاتا ہے، عوام اپنے اجتماعی مفادات کو انفرادی مفادات پر قربان کرنے لگتے ہیں، تو ان بد اعمالیوں کے نتیجے میں ملک و ملت کا عروج اہستہ اہستہ زوال پذیر ہو جاتا ہے اور پھر تاریخ کے صفحات پر وہ غالب قوم اپنے ان بد اعمالیوں کے بدولت مغلوب اقوام کے صف میں جا کھڑا ہوتا ہے۔
مغل حکمران جو کبھی سرزمین ہندوستان کے “باتاج” بادشاہ تھے، جن مغلوں کے ہندوستان کو “یورپ سونے کی چڑیاں” کے نام سے جانتا تھا، جس بادشاہت کے صرف ایک معمولی تاجر “عبدالغفور” کی دولت ایسٹ انڈیا کمپنی کی مجموعی مال و دولت سے زیادہ تھی، جس شاہنشاہیت کے ایک “شہنشاہ” نے غرور و تکبر کے چوٹیوں پر چڑھ کر “دین اکبری” کی بنیاد رکھ کر خود کو مسجود ٹھہرایا، جس حکومت کے ایک عالم پناہ “شاہجہان” نے تمام ہندوستان کے مال و زر کو جمع کر کے اپنی محبوبہ “بیگم صاحبہ” کا مقبرہ تعمیر کروا کر دنیا کا ساتواں عجوبہ تخلیق کروایا، ان مغلوں نے جب تخت نشین ہونے کے لیے ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے شروع کیے تو غالبیت سے مغلوبیت تک کا سفر طے کرنے میں چند ماہ و سال بھی نہ لگے اور “بابر” کی بنائی گئی عظیم شہنشاہیت “بہادر شاہ ظفر” کے ساتھ ہی دفن ہو گئی۔
فرنگ نے جدوجہد کی تھی، مختلف چالیں چلائی تھی، اپنوں اور پرایوں سب کو مال و دولت میں رنگا، کسی کو رام کیا تو کسی کو سڑک کنارے درختوں پر لٹکایا تب کہیں جا کر وہ نامدار مغلوں کو ہرانے میں کامیاب ہوئے تھے، ہندوستان پر قابض ہونے کے بعد فرنگ نے یہاں ہندوستانیوں کو اپنے مغربی رنگ میں رنگنے کے لیے وہ تمام قانونی اور غیر قانونی حربے استعمال کرنے شروع کیے جو ایک غالب قوم مغلوب قوم کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کے لیے استعمال کرتی ہے مگر اب بھی سرزمین ہند پر کچھ ایسے “انقلابی” اور “باغی” موجود تھے جو کسی بھی حال میں غلامی کے ان زنجیروں کو برداشت نہیں کر پا رہے تھے، ان انقلابیوں کا ذہن ہر آن ان سوچوں میں گم رہتا تھا کہ فوت شدہ عروج کس طرح دوبارہ حاصل ہو، کس طرح یہ مغلوبیت کا لباس اتار پھینکا جائے، کس طریقے سے یہ غلامی کی آہنی زنجیریں توڑی جائے، کبھی انفرادی تو کبھی اجتماعی مگر انقلابیوں کی جانب سے آزادی کی کوششیں جاری اور ساری تھی۔
سن 1804 عیسوی میں مسند الہند امام شاہ ولی اللہ دہلوی کے فرزند ارجمند شاہ عبدالعزیز نے فرنگی سامراج کے خلاف پہلی بار جہاد کا فتوی دے کر انقلابیوں کے تن بدن میں آزادی کی تڑپ اور بھی تیز کر دی اسی فتوے کا اثر تھا کہ ہندوستان کے عوام سن 1857 میں فرنگی حکومت کے خلاف صف اراء ہوئے مگر اس نازک ترین موقع پر بھی غیروں سے زیادہ اپنوں نے بے وفائی کی اور مال و زر کے ہوس میں بہت سے ہندوستانی دشمن کے آلہ کار بن گئے اور یوں آزادی کا یہ آخری چراغ بھی بجھ گیا۔

جنگ آزادی میں شکست کے بعد مفکرینِ ملت نے جدوجہد کا انداز بدل ڈالا اور سن 1867 میں “دیوبند” کے قصبے میں ایک انار کے درخت تلے استاد “ملا محمود” اور شاگرد “محمود الحسن” سے شروع ہونے والا مدرسہ اس نئی جدوجہد کا بنیاد بنا، اس مدرسے کے مہتمم قاسم العلوم والخیرات مولانا قاسم نانوتوی نے اول ہی روز سے مدرسے کا مقصد و منزل متعین کرتے ہوئے فرمایا کہ “میری خواہش ہے کہ دارالعلوم کا ہر تعلیم یافتہ انگریز کے محل میں شگاف کر دے اور اس مدرسے کا ہر فیض یافتہ سامراج کے لیے زہر قاتل بنے انگریز کے خلاف بغاوت کے جرم میں خواہ دارالعلوم کی اینٹ سے اینٹ بج جائے مگر انشاء اللہ یہ جنگ ہر حال میں جاری رہے گی”۔ اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ اس مدرسے کے شاگردانِ رشید نے ایسی فیصلہ کن تحریک چلائی کہ بلآخر فرنگی سامراج کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ ہندوستانوں کو اپنی دھرتی سونپ کر رخصت ہو جائے۔
جب گوروں نے سرزمینِ ہند سے کوچ کرنے کا ارادہ کیا تو مسلمانانِ ہند کو اپنے مستقبل کی فکر ہونے لگی، زعمائے ملتِ اسلام روز و شب اسی سوچ و فکر میں رہتے تھے کہ انگریز کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا، اسی وقت مسلمانوں میں دو مکتبہ فکر پیدا ہوئے، ایک مکتبہ فکر کے سالار حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی تھے اور دوسرے مکتب فکر کے سالار شیخ العرب والعجم شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی تھے۔
مولانا حسین احمد مدنی اس وقت دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور جمعیت علماء ہند کے امیر بھی تھے، حضرت مدنی، کانگرس کے امام الہند مولانا ابو کلام ازاد اور سرحد کے خدائی خدمت گاروں کے سرخیل خان عبدالغفار خان باچا خان بابا کی رائے یہ تھی کہ “انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندو قوم اور دیگر اقوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر متحدہ ہندوستان کے تعمیر و ترقی کے لیے بھاگ دوڑ کرنی چاہیے” جبکہ دوسری طرف مولانا اشرف علی تھانوی اس وقت مشہور دینی مراکز کے سرپرست اور ملک کے طول و عرض میں اپنے خلفاء اور مریدین کا ایک وسیع حلقہ رکھنے والے شخصیت تھے، مولانا تھانوی اور مسلم لیگ کی رائے یہ تھی کہ “متحدہ ہندوستان کے بجائے مسلمانانِ ہند کے لیے ایک الگ اسلامی خود مختار ریاست کی ضرورت ہے”۔
یاد رہے کہ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آلہ اباد کے مقام پر سن 1930 میں علامہ اقبال کے تصور پاکستان کے پیش کرنے سے بھی دو سال پہلے مولانا تھانوی نے 1928 میں پاکستان کا نقشہ پیش کیا تھا، مولانا عبدالماجد دریا ابادی کے الفاظ میں حضرت تھانوی نے دارالاسلام کی سکیم ان کے سامنے یوں پیش فرمائی تھی کہ “جی یوں چاہتا ہے کہ ایک خطے پر خالص اسلامی حکومت ہو، سارے قوانین تعزیرات وغیرہ کا اجراء احکام شریعت کے مطابق ہو، بیت المال ہو، نظام زکوۃ رائج ہو، شرعی عدالت قائم ہوں وغیرہ وغیرہ”، حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے بذات خود اس کے بعد اپنے اس فکر کو پھیلایا، مسلم لیگ کے کانگرس سے جدائی کے بعد 1938 میں “جھانسی” کے علاقے میں مسلم لیگ نے پہلا الیکشن لڑا جس کے لیے مولانا تھانوی نے مسلم لیگ کے حق میں فتوی جاری کر کے لکھ دیا کہ “کانگرس کو ووٹ نہ دیا جائے”، اسی حضرت تھانوی نے مسلمانوں کے مسلم لیگ میں شریک ہونے کیلئے 10 فروری 1938 میں “تنظیم المسلمین” کے نام سے بھی ایک فتوی جاری کر دیا، غرض یہ کہ مسلم لیگ کے پشت پر کھڑے ہو کر حضرت تھانوی نے آزاد ریاست کے حصول کی بھرپور کوشش کی۔
حضرت تھانوی اور حضرت مدنی کے مختلف فکر ہونے کے وجہ سے مسلمانانِ ہند بھی دو حصوں میں بٹ گئے لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ان ہر دو حضرات کا فکر و نظر ٹھیک ہی تھا کیونکہ
(1) حضرت مولانا زکریا رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ

“مسائل حاضرہ میں اصل مدار اسلام اور مسلمانوں کے منفعت پر ہے ان دونوں حضرات کا مقصد ایک تھا یعنی اسلام اور مسلمانوں کا نفع اور نقصان سے ان کو بچانا اور یہ ہونا بھی ضروری ہے کہ ایک ادنی سا مسلمان بھی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ اسلام یا مسلمان کو ادنی سا بھی نقصان پہنچے، اس مقصد کے حصول کے دو راستے ہیں اور دونوں خطرات سے خالی نہیں ہے اور اس میں کسی کو بھی انکار نہیں اب مسئلہ یہ ہے کہ کس راستے میں نقصان زیادہ ہے اور کس میں کم، کون سا نقصان قابل تحمل اور کون سا ناقابل برداشت ہے، اس کی مثال ان دو ڈرائیوروں کی سی ہے جن کو مکہ مکرمہ جانا ہو اور گاڑیوں کو ان کچے راستوں سے لے جانا ہے جن میں دلدل ضرور ہے، لٹیروں کا ملنا یقینی اور خطرات لازمی، مگر اختلاف اس میں ہے کہ کون سا راستہ ایسا ہے کہ اس میں خطرات کم اور کون سا راستہ ایسا ہے جس میں خطرات زیادہ، اب اگر ڈرائیوروں کو راستے کے انتخاب میں اختلاف ہو جائے اور ہر ایک کے نزدیک ایک راستے پر جانے میں منزل تک پہنچنے کا غلبہ ظن اور دوسرے راہ میں خطرہ یقینی ہو تو اس صورت میں ان ڈرائیوروں پر کیا الزام ہے جو ایک راستے پر مسافروں کو لے جائے اور جب یہ ڈرائیور حضرات دن رات اس فکر میں ہو کہ کس طرح راستے کا اصلاح کر کے راستے کو محفوظ بنایا جائے تو اب سوچو کہ اس گھڑی ان ڈرائیور حضرات کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے یا مخالفت کی کیا یہ دونوں حضرات مسافروں کی خیر خواہ نہیں؟ (ملخص از الاعتدال فی مراتب الرجال)۔

(2) یہ ہر دو حضرات اپنی اپنی نظر و فکر میں ٹھیک اس لیے بھی تھے کہ تقریبا 50 سال سے ہندوستان میں دو نظریے چل رہے تھے ایک یہ کہ “مسلمان اقلیت میں ہے اور ان کو دوسرے اقوام کے ساتھ مل کر سیاسی جدوجہد کرنا چاہیے کیونکہ اکثریت کے خلاف رہ کر کوئی بھی کوشش کامیاب نہ ہو سکے گی اگرچہ اس اتحاد میں کچھ چشم پوشی بھی کرنا پڑے اور دوسرا نظریہ یہ تھا کہ ہندوؤں کی تنگ نظری کی وجہ سے ان کے ساتھ ملنے میں مقصد تک پہنچنے سے قبل ہی بہت سے دینی اور دنیاوی نقصانات برداشت کرنا پڑے گے اس لیے کچھ علیحدہ کوشش کرنی چاہیے تاکہ سعی اور کوشش بار آور ہو”، اب یہ دونوں نظریات بالکل اخلاص پر مبنی تھے اور دونوں حتہی الامکان ٹھیک بھی تھے، ایسی صورت میں یہ کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں کہ دونوں جماعتیں اپنے دوستوں کو بھی مشورہ دے کہ “آؤں ہمارے ساتھ چلو”۔

(3) حقیقتِ حال یہی ہے کہ دونوں جماعتیں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی چاہتی تھی، حضرت تھانوی تو ایک علیحدہ دارالاسلام کا مطالبہ بھی اسی لیے کرتے تھے کہ مسلمان آزاد اور خود مختار ہو جائے، دوسرے نظریے کے افراد میں سب سے نمایاں حضرت مدنی اور باچا خان بابا تھے جو کہ متحدہ ہندوستان کا نعرہ لگاتے تھے، یہ دونوں حضرات بھی مسلمانوں کے خیر خواہ ہی تھے، مثلاً حضرت مدنی کے فکری جانشین جمیعت علماءِ اسلام پاکستان کے حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سے جب جیو ٹی وی کے پروگرام “ایک دن جیو کے ساتھ” میں میزبان جناب سہیل وڑائچ نے تقسیم ہند کے بارے میں سوال پوچھا تو مولانا صاحب نے جواب دیا کہ “مسئلہ پاکستان کے مخالفت کا نہ تھا بلکہ ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمانوں کے محفوظ مستقبل کا تھا یا تو متحدہ ہندوستان ہونا تھا اور یا پھر تقسیم ہونا تھا” اور اسی پروگرام میں جب حضرت باچا خان بابا کے جانشین رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان سے یہی سوال کیا گیا تو ولی خان نے جواب دیا کہ “ہم نے تقسیم ہند کی مخالفت نہیں کی تھی بلکہ ہم تو تقسیم مسلمان کے مخالف تھے” لہذا ان دو ذمہ دار حضرات کے جوابات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ مدنی فکر والے حضرات بھی حق پر تھے کیونکہ اسلام اور مسلمانوں ہی کے خیر خواہ تھے۔

(4) بات اصل میں یہ ہے کہ حضرت مدنی اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ ہر دونوں حضرات “مجتہد فی الوقت” تھے اور یہ تو ایک اصولی قاعدہ ہے کہ مجتہد اگر اپنے اجتہاد میں خطا بھی ہو جاوے تو بھی ایک اجر کا حقدار ٹھہرتا ہے تو اگر ان میں سے کسی صاحب کو خطا بھی ہوئی ہو تو بھی لعن و طعن کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔
اگلی بات یہ ہے کہ فیصلہ جب تقسیم ہند کا ہوا تو پھر تاریخ گواہ ہے کہ اتحاد کے داعی تھے یا تقسیم کی خواہشمند سب حضرات نے مل کر پاکستان کے تعمیر و ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کیا، مثلاً قیام پاکستان کے بعد 1948 کو جامعہ اسلامیہ ڈابھیل ممبئی میں حضرت مدنی سے قیام پاکستان کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا “بھائی یہ ممکن ہے کہ کسی جگہ مسجد کی تعمیر کی گفتگو ہو تو اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ اس جگہ مسجد کی تعمیر کی جائے یا نہ کی جائے، لیکن جب مسجد بن گئی تو اب کوئی گنجائش اس اختلاف کی نہ رہی اس مسجد کو باقی رکھا جائے منہدم نہ کیا جائے”، اسی طرح جب سید عطا اللہ شاہ بخاری سے پوچھا گیا تو فرمایا “اب پاکستان نے جب بھی پکارا واللہ باللہ میں اس کے ذرے ذرے کی حفاظت کروں گا مجھے یہ اتنا عزیز ہے جتنا کوئی دعوی کر سکتا ہے، اس کی طرف کسی نے انکھ اٹھائی تو وہ پھوڑ دی جائے گی کسی نے ہاتھ اٹھایا تو وہ کاٹ دیا جائے گا وطن اور اس کی عزت کے مقابلے میں نہ اپنی جان عزیز رکھتا ہوں نہ اپنی اولاد کو، میرا خون پہلے بھی تمہارا تھا اور اب بھی تمہارا ہے”، مولانا ابو کلام ازاد سے جب دہلی میں بیٹھے ہوئے ایک انجینیئر نے کہا کہ “مولانا صاحب ابھی لاہور سے ہو کر آیا ہوں پاکستان دو دن بھی نہیں چل سکتا”، تو مولانا آزاد نے جلال میں آ کر کہا “جاؤ!!! اور پاکستان کی ترقی میں رات دن ایک کرو، خدانخواستہ اگر پاکستان کو کچھ ہوا تو یہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا”۔

اس تمام تفصیل کا مقصد یہ تھا کہ آج کل کچھ عقل سے پیدل اور تاریخ سے نا اشنا دانشوران ایک دفعہ پھر سے یہ باتیں کرنے لگے ہیں کہ یہ “مولوی لوگ تو پاکستان بننے کے مخالف تھے اب یہ کیوں اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور یوم آزادی مناتے رہتے ہیں”۔
حضرات گرامی اگر مولوی لوگوں نے متحدہ ہندوستان کا نعرہ لگایا تھا یا کہ پھر تقسیم ہندوستان کا، دونوں کا مقصد صرف اور صرف اسلام اور مسلمان کی خیر خواہی تھی اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے، اب اگر کوئی اٹھ کر گھڑے مردے پھر سے اکھاڑے گا تو یہ تو یا صرف اور صرف اسلام اور پاکستان دشمنی ہوگی اور یا پھر غیروں کی نوکری چاکری ہوگی۔
یہ بھی یاد رہے کہ اختلافات جب تک “اختلافات” ہی رہے اور حد سے بڑھ کر “مخالفت” نہ بن جائے تو یہ باہم محبت اور احترام کا سبب ہوتا ہے اور ہر دو فریق اختلافات کو حدود میں رکھ کر اپنی مدعا کو دلائل کے زور سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں،

حضرت تھانوی اور مدنی دونوں حضرات مذکورہ مسئلہ میں ایک دوسرے سے فکری طور پر یقینا جدا تھے مگر پھر بھی اتنے بڑے اختلاف کے باوجود باہمی محبت کے واقعات تاریخ کے صفحات پر بکھرے پڑے ہیں، ذیل میں حضرت تھانوی کے وہ مبارک ارشادات اور کلمات ہے جو حضرت مدنی کے بارے میں کہے ہیں مثلاً
1 میں ان )مدنی) جیسی ہمت مردانہ کہاں سے لاؤ،
2 میں موصوف کو مخلص اور متدین سمجھتا ہوں،
3 ان سے کوئی کلمہ خلاف حدود نہیں سنا گیا،
4 مولانا مدنی میں مجاہدہ اور تواضع بدرجہ اتم موجود ہے،
5 مجھے خیال نہ تھا کہ مولانا (مدنی) سے مجھے اتنی محبت ہے،
6 میں اپنی جماعت میں مولانا مدنی کے جوش عمل کا معتقد ہو،
7 حضرت مدنی کو دیکھ کر تسلی ہو گئی کہ باطنی دنیا کی خدمت کے لیے موجود ہے،
8 ان کی مخالفت کرنے والوں کے سوء خاتمہ کا خوف ہے،
9 حضرت حسین احمد صاحب بہت شریف طبیعت کے مالک ہیں،
10 حضرت مدنی سب کچھ ہونے کے باوجود اپنے اپ کو کچھ نہیں۔
اور حضرت مدنی کے کلمات طیبات حضرت تھانوی کی ذات گرامی کے بارے میں یہ ہے مثلاً
1 حضرت تھانوی سے بہت زیادہ عقیدت ہے،
2 فقہی مسائل میں ان کا قول قابل اعتماد ہے،
3 ان کی قابلیت اور کمالات کے سامنے اتنی بھی نسبت نہیں رکھتا جو کہ طفل دبستان کو افلاطون سے ہو سکتی ہے،
4 بے شک وہ مجدد تھے انہوں نے ایسے وقت میں دین کی خدمت کی جب دین کو بہت احتیاج تھا،
5 حضرت مولانا اشرف علی صاحب کا عالم اسلامی اور خلائق کو فیضیاب بنانا آفتاب کی طرح دنیا میں روشن ہے اور ہو چکا ہے،
6 حضرت تھانوی کے مواعظ بہت مفید ہے ضرور ان کا مطالعہ رکھیں،
7 حضرت ماجد دریا آبادی کو لکھا “مولانا تھانوی کی خدمت میں جس قدر بیٹھنا نصیب ہو غنیمت جانیں”،
8 مودودی صاحب کا قول ان (تھانوی) کے سامنے ایسا ہی شمار کیا جائے جیسے ایک کامیاب بیرسٹر کے سامنے چودھویں پانچویں کلاس کے طالب علم کا قول ہوگا۔
یہ تو کچھ نمونہ جات ہیں کہ باوجود اتنے بڑی فکری اختلاف کے زمانہ اختلاف میں بھی دونوں حضرات کے باہمی الفت اور محبت کا عالم کیا تھا ورنہ اس باب کے بے شمار واقعات اسلاف کی کتابوں میں ملیں گے۔

خلاصہ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارے اکابر کی تحریکات کے بدولت فرنگ سرزمینِ ہند چھوڑنے پر مجبور ہوا، پھر عزت اور تکریم الفت اور محبت کی حدود میں رہ کر دلائل کی بنیاد پر مسلمانوں کے محفوظ مستقبل کے لیے اکابر علماء نے دن رات کوششیں کی، اب ہم کو تقریبا سو سال گزرنے کے بعد ان اکابر پر لعن اور طعن بھیجنا، بے جا الزامات اور رد اور قدح کے بجائے بھرپور انداز کے ساتھ ملک عزیز پاکستان کے ترقی اور تعمیر کے لیے کام کرنا چاہیے اور اپنے سامنے یہ سہ گانہ اصول رکھنے چاہیے،
ایمان__اتحاد__تنظیم

اپنا تبصرہ بھیجیں