اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا کی وجہ سے صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ پوری دنیا میں زندگی کا ہر شعبہ بُری طرح متاثر ہے۔ کروڑوں لوگوں کے روزگارختم ہو ئے اور ہزاروں کی تعداد میں صنعتیں، کارخانے، کاروبار ی مراکز، تعمیراتی کمپنیاں اور دیگر مالیاتی اداروں کو تالے لگ گئے۔ لاکھوں غیر ہنرمند اور ہنر مند افراد بیرون ملک سے شدید بے بسی اور تہی دامنی کے عالم میں واپس آگئے جس کے پاس اب کرنے کو کوئی کام نہیں اور ان کی واپسی کے بعد ان کے خاندان والوں کی زندگیوں پر بھی یقینا منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ تمہید اس لئے باندھنی پڑی کہ گذشتہ روز اپنے ایک دوست کے پاس بیٹھا تھا جس کا تعلق قبائلی علاقے سے ہے۔ ہم چائے پی رہے تھے کہ اس دوران ان کا بیٹا جو ایڈورڈز کالج میں پڑھ رہا ہے، ہا تھ میں بینک کا رسید لئے وارد ہو ا۔ سلام کلام کرنے کے بعد اس نے والد کے ہاتھ میں بینک کا رسید پکڑا دیا جس میں اس کے بیٹے کے ایک سمسٹر کے فیس کی رقم لکھی تھی۔ بیچارہ ہمارا دوست ایک سفید پوش ادمی ہے جوں توں کرکے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں لیکن کرونا کی وجہ سے اس کا بھی روزگار چھین گیا ہے اور عملاً فراغت کے مزے لے رہا ہے۔ بیٹے کے ہاتھ سے رسید تو لے لیالیکن اس بیچارے کو ساتھ ہی یہ فکر بھی لاحق ہو ئی کہ فراغت اور بے روزگاری کے اس دور میں جبکہ وہ اپنے خاندان کے اخراجات کیلئے پریشان ہیں، تقریباً چالیس ہزار کے قریب یہ رقم کہاں سے لا کر بیٹے کا فیس داخل کرے گا۔
یہ بھی پڑھئے : کرونا وباء۔۔۔۔ ان لائن کلاسز تحریر ۔۔۔۔۔۔ عبدالصبور خٹک
یہ صرف ایک ہی مثال نہیں بلکہ یہاں ہزاروں لوگ ہیں جو اپنے بچوں کی تعلیمی اخراجات کیلئے ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا حال بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں لیکن وہاں کی حکومتوں نے اپنے شہریوں کو کوروناکے اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے یہاں تک کہ انہیں گھروں پر رہنے کیلئے ان کے اکاؤنٹس میں نقد پیسے بھی بھیج دئے۔ ہماری معیشت چونکہ اس لیول کی نہیں کہ ہم بھی ان کی طرح کے اقدامات کرسکے لیکن یہاں ایک ضروری عرض یہ کرنی ہے کہ پشاور بلکہ خیبر پختونخوا کا قدیم ترین اور سب سے بہترین ادارہ ایڈورڈز کالج چونکہ ایک طویل عرصے کی کشمکش کے بعد نیشنلائز ہو چکا ہے اس لئے اس ادارے کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے حکومت کو اس پر توجہ دینی ہوگی۔
ایڈورڈز کالج میں پڑھنے والے موجودہ طلباء کی تعداد تین ہزار سے اوپر ہے جس میں اجکل اکثریت بی ایس کے طلباء کی ہے جبکہ کچھ طلباء ایم اے اور بی اے کے بھی یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب طلباء ایلیٹ کلاس سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ہمارے دوست کی طرح اکثریت سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اجکل بُری طرح متاثر ہیں اور اکثر طلباء کے والدین حقیقت میں اپنے بچوں کی فیسیں آدا کرنے سے تقریباً قاصر ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے معاشرے کے سفید پو ش طبقے کو فٹ پاتھ پر لا کھڑا کیا ہے جس سے حقیقی معنوں میں ان کے بچوں کے تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ہم یہاں حکومت سے تمام تعلیمی اداروں کیلئے عموما ًاور ایڈورڈز کالج پشاور کیلئے خصوصاً عرض کرینگے کہ گورنر صاحب اور وزیر اعلی صاحب اس سلسلے میں انتہائی سنجیدگی سے اقدامات اٹھائے اور یہ بہت سادہ اور اسان سا طریقہ ہے کہ حکومت ایڈورڈز کالج کو آئندہ دو تین سالوں تک خصوصی گرانٹ دیدیں جس سے طلباء کی فیس سٹرکچر کو کم سے کم کیا جا سکے اور خاص طور پر قبائلی طلباء جو ایڈورڈز کالج میں پڑھ رہے ہیں ان کی فیسیں مکمل طور پر معاف کئے جائیں کیونکہ سابق فاٹا کے طلباء کے ساتھ ویسے بھی حکومت نے کافی رعایتیں دینے کا اعلان کیا تھا جس میں بہت کم پر اب تک عمل در امد ہوا ہے۔ ہمیں بہت سے قبائلی طلباء کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں کالج کی فیس آدا کرنے کی سکت نہیں رکھتے کیونکہ ان کے والدین کا یوں تو روزگار ختم ہو چکا ہے اور اکثریت بیرون ملک سے واپس آئے ہیں جس سے ان کے خاندانوں کو روزی روٹی کے لالے پڑگئے ہیں۔
یہ بھی ملاحظہ کیجئے: چلو–ھم ھوئے کرونا کے حوالے… تحریر: شیراز پراچہ
یہ ساری صورتحال کافی پریشان کن ہے اور اس میں نہ صرف حکومت بلکہ ایڈورڈز کالج اولڈ ایلومینائی ایسو سی ایشن، جن میں بہت سے لوگ اجکل اس مقام پر ہیں جو اگر چاہے تو کالج کو ایک مضبوط سہارا فراہم کرسکتے ہیں، ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کے ساتھ ساتھ وہ بھی اپنے مادر علمی کی شفقت کا جواب دیں اور اس ادارے میں زیر تعلیم بچوں پر پڑنے والے اس اچانک معاشی بوجھ کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔ بطور ایک قبائلی کے میں یہاں بھی قبائلی طلباء کی مالی مشکلات کا حوالہ دونگا کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کی معاشی بوجھ کو کم کرنے کیلئے اسی ایسو سی ایشن میں قبائلی افسران اور صاحب حیثیت لوگوں کو بطور خاص اگے انا چاہئے تاکہ موجودہ حالات کے دباؤ اور بوجھ کو حکومت کے ساتھ مل جُل کر کم سے کم کیا جا سکے اور قبائلی طلباء سے تو اس بوجھ کو سرے سے ختم ہی ہوجا نا چاہئے کیونکہ اس علاقے میں غربت کی شرح ملک کے دیگر حصوں سے کہیں زیادہ ہے اور گذشتہ ڈیرھ دھائی سے شدت پسندی، دہشت گردی اور اپریشنوں کی وجہ سے یہاں رہی سہی روزگار کے مواقع بھی ختم ہو چکے ہیں اور یہاں سے کاروباری اور امیر لوگوں نے اپنا سرمایہ بیرونی اضلاع میں منتقل کردیا ہے جس سے یہ علاقہ عملی طور پر بے اب و گیاہ رہ چکا ہے اس لئے اس علاقے کے طلباء ہماری ہمدردی کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔