شمالی وزیرستان یا شہر ناپرسان ۔۔ خصوصی تحریر : ناصر داوڑ

شمالی وزیرستان یا شہر نا پرساں ۔۔۔۔
تحریر : ناصر داوڑ

شمالی وزیرستان میں دہشتگردی، شدت پسندی، بدامنی، ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری ، اغوا کاری، گھروں میں لوٹ مار، بازاروں، دکانوں کی مسماری، مساجد کی شہادت اور فوجی کارروائیوں جیسے بڑے مسائل تو ہیں ہی، ان کے ساتھ ذمہ دار حلقے نمٹیں گے، ہم اس میں معلوم مجبوریوں کے باعث اکثر خاموش ہی رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، جس پر میں معزرت خواہ ہوں، کیونکہ جان ہے تو جہان ہے اور آپ سب کو نتائج معلوم ہیں، نامعلوم نہیں ۔۔
دور حاضر میں یہاں کے مقامی لوگوں کے گھروں، اراضی کے تنازعات، گھریلو جھگڑے اور پرانی دشمنیاں بھی مسئلہ بنتی جا رہی ہیں، جہاں قانون بھی اندھا اور بہرہ بن چکا ہے، کیونکہ بیشتر تنازعات کے حل کیلئے انتظامیہ اور پولیس کے پاس فارمولہ موجود ہے، جیسا کہ دریائے ٹوچی کے دونوں جانب بندوبستی علاقہ ہے جس کا پٹوار ریکارڈ بھی موجود ہے اور مثل بھی، انضمام کے بعد کورٹ کچہری بھی فعال ہے مگر اس کو فعال رکھنے کیلئے پولیس کی جانب سے اگر کارروائیاں ہیں تو کورٹ کچہری میں مسائل کا حل نکل سکتا ہے، مگر کورٹ کچہری کیلئے بھی مقامی انتظامیہ اور پولیس کا فعال ہونا ضروری ہے؟ کورٹ کچہری آئین اور قانون کے مطابق مسائل کا حل نکال سکتے ہیں ، جس کیلئے مقامی سطح پر ذمہ دار حلقوں کو قدم بڑھانا چاہئے مگر یہاں گنگا الٹی بہتی ہے، یہاں پر لولے اور لنگڑے ہیں، اسی وجہ سے قدم آگے نہیں بڑھ پاتے،
شمالی وزیرستان میں کسی نہ کسی طور ان مسائل کا حل بھی نکل ہی آئیگا، مگر فی الوقت سب سے خطرناک اور مکروہ دھندہ ہے منشیات کے اڈے؟؟؟ یہاں مختلف مقامات پر چرس اور شراب کے نام پر زہر اور آئس جیسی خطرناک اور مہلک نشہ آور اشیاء کی کھلے عام خرید و فروخت ہو رہی ہے ۔۔
کئی مرتبہ ہم نے خود کوشش کی ہے کہ کسی طریقے سے منشیات کے خاتمے کیلئے ذمہ دار حکام اپنا کردار ادا کریں مگر ایک ڈیڑھ سال گزر گیا، منشیات کے خاتمے کیلئے کوئی بھی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ۔۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مقامی لوگ اس مکروہ اور خطرناک دھندے کو سپورٹ کر رہے ہیں،
بعض اوقات خبر موصول ہوتی ہے کہ شمالی وزیرستان میں پولیس کی کارروائی، منشیات کی کھیپ برآمد، ملزمان فرار یا کبھی کبھار گرفتاری کی اطلاعات؟؟؟ مگر حقیقت اس سے کچھ مختلف ہے،
وہ یوں کہ میر علی ، میرانشاہ اور رزمک کے تین بڑے بازاروں کے آس پاس دیہات میں یہ دھندے چلائے جا رہے ہیں، جہاں کئی طاقتور اور بااثر شخصیات ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں، مگر اب آئس جیسا نشہ قبائلیوں کے گھروں تک پہنچ چکا ہے اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اب جوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اس لت میں مبتلا ہو گئی ہیں، اس کا کوئی ٹھوس ثبوت تو نہیں، مگر ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کو نظر انداز کرنا بھی مناسب نہیں ۔۔
صحافتی اصولوں کے برعکس اس کہانی میں پولیس کا مؤقف اس لئے شامل نہیں کیونکہ اس کا موقف معلوم ہے اور وہ یہ کہ ہم نے کئی مرتبہ کارروائیاں کی ہیں، متعدد گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں، اور مزید بھی کارروائیاں کی جا رہی ہیں، تو اس کیلئے پولیس کا وقت برباد نہیں کرنا چاہتا ۔ ویسے بھی ان کے پاس فون پر بات کرنے کیلئے وقت نہیں، نہ ہی واٹس ایپ پر مسیج کا جواب گوارا سمجھتے ہیں، اب خیر اسی میں ہے کہ صحافتی اصول کے خلاف ان کے مؤقف کے بغیر بھی منشیات کے اس مکروہ دھندے اور اسے سپورٹ کرنیوالے مکروہ چہرے بے نقاب کئے جا سکیں ،،،
پشتو کے معروف شاعر اور سیاستدان اجمل خٹک بابا کا یوں کہنا ہے کہ
”خبرے شتا ۔۔۔ خبرے ڈیرے دی او خبرے با کوو“
منشیات کے موضوع پر مرحلہ وار تمام خبریں، اور اس کے محرکات کو منظرعام پر لانے کیلئے دی خیبر ٹائمز نے ایک سلسلہ شروع کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، تاہم شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے چند دوستوں ڈاکٹر زاہد جان داوڑ، معمور جان اور منور شاہ کے ساتھ ایک نشست رکھی جائیگی ، جنہوں نے اس موضوع کو اٹھایا تھا اور اس پر کافی کام بھی کیا ہے، اس کے علاوہ دی خیبر ٹائمز کا سٹاف ہر اس فرد کے پاس جائیگا، جس سے منشیات کے کاروبار اور استعمال کی تھوڑی بہت معلومات تک رسائی ممکن ہو سکے، ہم یہ پہلو بھی دیکھیں گے کہ اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث افراد کے علاوہ ان کے سہولت کار کون ہیں؟؟ ان کو بھی عوام کے سامنے ظاہر کرینگے، مگر اب بھی وقت ہے اگر اس کے خاتمے کیلئے شمالی وزیرستان میں بلا تفریق کارروائی کی جائے ۔۔۔!!

اپنا تبصرہ بھیجیں