کسی بھی کرسی کو ٹھیکنے کیلئے چار سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ چاہے کسی چوکیدار کی ہو ؟ یا وزیراعظم کی؟ جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں اسلام آباد میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کے سب سے بڑے اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اس کہ پارٹی کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے وفاق اور صوبے دونوں میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ختم کرچکا ہے، اب یہاں اگر دیکھا جائے تو عمران خان کی کرسی کو ہم لنگڑی کرسی تو کہہ سکتے ہیں، یا سمجھ سکتے ہیں۔ باقی ان کی کرسی کے تین پیر، تو اسمیں سب سے مضبوط پیر پاکستان تحریک انصاف کی ہے، جسمیں جہانگیر ترین کا خون پسینہ بھی شامل ہے، اب شائد یہ عمران خان کے کرسی کی مضبوط پیر میں اسی طرح کارآمد نہ ہو جو اس سے قبل سمجھاجاتاتھا، ایم کیو ایم ، والی پیرکو کاٹنے کا ٹھیکہ بھی پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے لی ہے، جس میں اس نے کافی حد تک کام بھی کی ہے، ہم سمجھ سکتے ہیں، کہ خواجہ آصف نے بھی ایم کیو ایم کے بل بوتے کھڑا رہنے والی پیر میں دیمک ڈالی ہے، کرسی کی پیر اگر دیمک زدہ ہے تو اس پر پوری طرح اعتماد نہیں کیا جاسکتا، پاکستان مسلم لیگ ق کی پیر ابھی تک مضبوط نظر آرہی ہے، تاہم یہاں ایک شعر یاد آتا ہے، کہ ( سایہ بھی ساتھ جب چھوڑ جائے ، ایسی ہے تنہائی ) اس شعر کو سن کر خیال آجاتا ہے کہ مسلم لیگ ق کہیں ساتھ نہ چھوڑ دیں ؟ پاکستان مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف نے نہ صرف ایم کیو ایم والی پیر کو کاٹنے کیلئے ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے، بلکہ وہ وزارت عظمیٰ کیلئے بھی آیاز صادق کیلئے شیروانی تیار کررہے ہیں، خیبرپختونخوا میں بھی بڑی تبدیلی کا امکان بن رہاہے، کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کا سب سے مالدار اور مضبوط گھرانہ سمجھے جانے والی صوابی کے ترکئی خاندان بھی مسلسل بد ظن ہوتی جارہی ہے، آئے روز ان کے گلے شکوے کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے، خیبرپختونخوا سے پاکستان پیپلز پارٹی پلٹ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نورعالم ایڈوکیٹ کی سرگرمیاں بھی مشکوک سی لگ رہی ہے، لیکن اس صورتحال کے باوجود ملک کے نامور اور سینیئر صحافی اور تجزیہ کار طلعت حسین صاحب اپنی یوٹیوب چینل پر وی لاگ میں کہتے ہیں، کہ جس پیروں سے عمران خان کی کرسی قائم ہے، وہ ان کیلئے کافی قرار دے رہے ہیں۔
یہاں بھی ملاحظہ کیجئے مدت سے لاپتہ ھے خدا جانے کیا ہوگا…!
مولانا فضل الرحمان اس بار دھرنوں کی سیاست کے بجائے سیاسی بصیرت کے استعمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم کرسی کو سہارا دینے والے پیروں کو کمزور کرنے کیلئے کام کررہے ہیں۔
ملک میں کورونا کی وبا ہو یا اس بار گلابی رنگ میں لپٹے ہوئے الٖفاظ میں جو سالانہ ترقیاتی بجٹ پیش کیا ہے، وہاں سے بھی جناب عمران خان کے کرسی کو کمزور کئے جانے کا امکان ہے، اپوزیشن جماعتوں نے جس دلائل کا سہارا لیتے ہوئے کام شروع کیا ہے؟ وہ انتہائی ماہرانہ انداز میں پیش کیا جارہاہے، بجٹ پر اب ایک عام سا انسان بھی سمجھ رہاہے، جس کیلئے بجٹ میں کوئی خاص قابل ذکر ریلیف شامل نہیں ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ محمود قریشی کی کھینچی والی ویڈیو ہو یا عظمیٰ کاردار کی آڈیو فون کال کا لیک ہونا، یہ تمام وہ باتیں ہیں، جس کی وجہ سے اب کوئی بھی پی ٹی آئی کی حکومت کو مظبوط حکومت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم کو وزارت عظمیٰ کی کرسی کو بچانے کیلئے اب عمران خان کو بھی سنجیدہ ہونا ضروری ہے، بصورت دیگر اس کی کرسی کو کوئی بھی معزور یا لولی لنگڑی کرسی کہہ سکتے ہیں۔ اسلام آباد کے کل جماعتی کانفرنس بلانے سے قبل مولانا فضل الرحمان نے اس سے قبل پشاور میں جو کل جماعتی کانفرنس بلایا تھا، وہ عمران خان کی کرسی اور اس کے جماعت تحریک انصاف کی صحت کیلئے خطرناک تھا، جس میں اکثر سیاست کے ٹائیکون شامل تھے، یا تمام سیاسی ٹائیکون کا آشیر باد حاصل تھا۔
انہی سیاسی ٹائیکون سے مشاورت کے بدولت اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کے بعد پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں کہاہے، کہ اپوزیشن کے پاس تحریک عدم اعتماد کا آپشن بھی موجود ہے، تاہم اس میں جلد بازی نہیں ہوگی، کیونکہ اپوزیشن جماعتیں پہلے بھی سینیٹ میں ایک تلخ تجربے کا سامنا کرچکے ہیں۔
خیبرپختونخوا ہی پاکستان تحریک انصاف کیلئے سب سے اہم صوبہ ہے، جہاں سے پاکستان تحریک انصاف نے حکومت میں پیر رکھے ہیں، یہاں وفاقی وزیر دفاع اور سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی وجہ سے بھی گروپ بندی بن گئی ہے، جو پاکستان تحریک انصاف کی صحت کیلئے خطرناک ہے، اگر یہاں کے اختلافات برقرار رہے، تو یہاں کی گرمی وفاق پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے : خیبرپختونخواکےایک وزیرکو بچانےکی کوشش ؟؟؟ فدا عدیل
“عمران خان کی کرسی خطرے میں؟ دی خیبرٹائمز خصوصی رپورٹ” ایک تبصرہ