بچوں کے ساتھ بدسلوکی، انکی استحصال، بچوں کے اغواء اور ان پرہونے والے تشدد کے واقعات کی روک تھام حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں بچوں پر تشدد کے واقعات کے حوالے سے صورتحال کچھ زیادہ اچھی نہیں۔وزرات انسانی حقوق کے اعداد شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں جاری لاک ڈاون کے دوران ایک سو پچاس سے زائد بچوں کے ساتھ تشدد و ہراساں ہونے کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ تاہم اس پر صوبائی حکومت کی جانب سے وضاحت سامنے نہیں آئی ہے۔ 2015میں دنیا کے 145ممالک اپنے شہریوں کوبنیادی حقوق کی فراہمی کےلئے متفق ہوئے، ان ممالک کے درمیان سترہ طے شدہ اصولوں میں ایک اصول یہ بھی طے ہوا کہ ہر ملک کی یہ بنیادی ذمہ داری ہوگی کہ وہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی، انکے استحصال، اغوا اور ان پر تشدد کے واقعات کو روکے اور بچوں کے حقوق کے لئےایسے قواتین بنائے جائیں جو اس ملک کے مروجہ قانون اور بین الاقوامی قوانین سے متصاد م نہ ہوں اور سب بچوں کو برابر انصاف مل سکے۔ پاکستان نے بھی ان معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور وہ بھی اس بات کا پابند ہے کہ ان اصولو ں پر عمل پیرا ہو۔ چین کے شہر اوہان کے بعد دنیا میں تیزی سے پھیلنے والے کویڈ نائینٹین وائرس کے
بعد عالمی ادارہ صحت نے تمام ممالک کو آگاہ کردیا کہ شہریوں کے گھروں تک محدود کیا جائے تو ہی اس وباء پر قابو ممکن ہے ۔ اس لاک ڈاون نے اگر ایک طرف دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا تو دوسری طرف معاشرتی نظام کو بری طرح متاثر کیا۔ لاک ڈاون کے ان تمام پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے جب یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ موجودہ صورت حال میں تعلیمی اداروں کی بندش اور بچوں کے گھروں پر موجود ہونے اور ان بچو ں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے حکومت کیا کر رہی ہے تو جواب نفی میں ملا جس کے بعد بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں سے معلومات لی گئیں تو پتا چلا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے تشدد کرنے والا اور تشدد کا شکار ہونے والا فرد ایک چھت تلے رہنے پر مجبور ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تشدد کے واقعات روکنے کے بجائے بڑھ گئے ہیں، ان واقعات میں ایک دلخراش واقعہ پشاور کے علاقہ تہکال میں اس وقت پیش آیا جب شور مچانے پر چچا نے اپنی بھتیجی کو قتل کر ڈالا۔بعدازاں پولیس نے بچی کے قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار کرلیا۔ بچی کے والدین نے ملزم کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزرات انسانی حقوق کے ریجنل ڈائریکٹر غلام علی کا کہنا ہے کہ عالمی وباء پھیلنے کے بعد ملک میں جاری لاک ڈاون کے باعث خواتین اور بچوں کو درپیش مسائل جانچنے کے لئے اعدا د و شمار جمع کرنے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس دوران 150سے زائد بچوں پر جنسی تشدد اور انہیں ہراساں کرنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ سال 2019 میں خیبرپختونخوا میں 248 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے جبکہ رواں سال کے پہلے ڈیرھ ماہ میں ہی صرف نوشہرہ سے 7 کیسز رپورٹ ہوئے۔ بچوں کے حقوق کے لئے مثبت ذہن سازی پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کی روک تھام کے لئے حکومتی سطح پر قائم صوبائی پروٹیکشن کمیشن اور اضلاع میں پروٹیکشن یونٹ بحال کئے جائیں اور اُس قانون پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔بچوں سے جنسی زیادتی کے مرتکب مجرم کی (آختہ کاری) یعنی مرد کو ناکارہ بنانے یا سرعام پھانسی دینے کے لئے سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق احمد غنی کی سربراہی میں سپیشل کمیٹی نے اسلامی نظریاتی کونسل اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر ہشام انعام اللہ خان کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی حتمی رائے آنے کے بعد اس سے متعلق قرارداد صوبائی اسمبلی میں لائینگے۔ بچوں سے جنسی زیادتی کے مجرم کوسرعام پھانسی کے متعلق سپیکر مشتاق احمد غنی کا کہنا ہے کہ اس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آڑے آگیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر قانون سازی کے لئے قرارداد اسمبلی میں لائینگے۔خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل شمائل بٹ نے سپیشل کمیٹی کو تجویز دی ہے کہ جنسی زیادتی میں ملوث مجرم کو سزا دینے کے لئے پہلے سے موجود قوانین کو مدنظر
رکھ کر قانون سازی کی ضرورت ہے کیونکہ شادی اور جونائیل قانون(جرم کے مرتکب بچوں کے لئے تیار کردہ قانون) میں بچے کی عمریں مختلف رکھی گئی ہیں۔ اس سے ملا جلا موقف پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالطیف آفریدی کا بھی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی ممبر سپیشل کمیٹی شگفتہ ملک کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے چائلڈ پروٹیکشن کمیشن غیرفعال ہے ، چھ سال سے کمیشن کا چیف کا عہدہ ہی خالی پڑا ہے۔خیبر پختونخوا میں بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کے سربراہان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں کویڈ نائینٹین اور اس کی وجہ سے جاری لاک ڈاون کے باعث بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ والدین کے سلیف آئسولیشن میں چلے جانے کے بعد ضروری ہے کہ ان کے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کئے جائیں ۔حکومت کو چاہیے کہ کورونا وائرس اور جاری لاک ڈاون کی وجہ سے اب تک متاثر ہونے والے بچوں کے اعداد و شمار کو بتایا جائے۔
چائلڈ رائٹس مومنٹ خیبر پختونخوا کے سربراہ عمران ٹکر نے خیبر ٹائمز کو بتایا کہ لاک ڈاون کے باعث تعلیمی ادارے، کھیل کود کے میدان بند پڑے ہیں، بچوں کی مثبت اور صحت افزا ء سرگرمیاں معطل ہوکر رہ گئی ہیں۔ انہوں نے لاک ڈاون کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی ذیادتی کے، استحصال اور نفسیاتی پریشانی میں اضافہ سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کم آمدنی والے گھرانوں کے بچے مزدوری اور بھیک مانگتے دکھائی دے رہے ہیں، ایسی صورت حال میں صوبائی حکومت ابتدائی اور ثانوی تعلیم سکولوں کی بندش اور امتحانات سے متعلق واضح پالیسی وضع کرے تاکہ بچوں اور والدین کی بے چینی ختم ہو۔ خیبر پختونخوا چائلڈپروٹیکشن ایکٹ 2010کے کے تحت قائم کمیشن غیر فعال ہونے کی وجہ سے بچوں سے جنسی ذیادتی کی روک تھام کے لئے موثر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے محکمہ سوشل ویلفیئر کے ماتحت ادارہ چائلڈ پروٹیکشن مفلوج ہوکر رہ گیا۔خیبر پختونخوا حکومت کے پاس چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2010 موجود ہ ہے اس کے تحت چائلڈ پروٹیکشن کمیشن پر اگر من وعن عمل کیا جائے تو بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات پر قابو ممکن ہو سکتا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں “خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 “صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد اس ایکٹ میں موجود نظام کو فعال کرنے کی ضرورت تھی لیکن بد قسمتی سے جب بھی موجودہ حکومت کو ان کی خامیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے تو وہ سارا ملبہ ماضی کی حکومتوں پرڈال دیتی ہے۔ حالانکہ ماضی کی حکومتوں نے کچھ اچھے قوانین بھی بنائے جن کو فعال کرنا موجود ہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پہلے سے موجود خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 میں موجود طریقہ کار کو عملی جامہ پہنائے ۔ قانون کے مطابق چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کے صوبائی چیئرمین صوبائی وزیر سوشل ویلفئیر ہوتے ہیں، جبکہ سیکرٹری سوشل ویلفیئر خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن صوبائی کمیشن کے وائس چیئرمین ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2010 کے مطابق صوبائی سطح پرکمیشن کا ایک چیف ہوگا۔ جبکہ اس وقت خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن صوبائی کمیشن کا چیف عہدہ خالی پڑا ہے۔خیبر پختونخوا حکومت نے ضرورت محسوس کرتے ہوئے چائلڈ پروٹیکشن کمیشن ایکٹ کے ممبر ز کی تعیناتی کی شق میں ترمیم کرکے سیکرٹری صحت کو بھی کمیشن کا ممبر بنانے کا اختیار صوبائی اسمبلی سے حاصل کیا۔اسطرح کمیشن ممبران کی تعداد بڑھ کر اب پندرہ ہو گئیں۔ سوشل ویلفیئر کا قلمدان ہشام انعام اللہ خان کو سونپ دینے کے بعد دیگر ممبران اسمبلی کا بھی کمیشن ممبر ز بنانے کے لئے ایک اعلامیہ جاری ہوا۔اس کے مطابق اس وقت تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی پیر فدا، پی ٹی آئی کی خاتون رکن اسمبلی سمیرا شمس اور قصہ خوانی بازار پشاور کے انگور والی مسجد کے امام ڈاکٹر عبدالغفور صوبائی کمیشن کے ممبرزہیں۔ صوبائی چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کے دیگر ممبرز میں ڈپٹی سیکرٹری پارلیمانی امور، ڈپٹی سیکرٹری
خزانہ، ڈپٹی سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اور ڈپٹی سیکرٹری ہوم اینڈ ٹرائبل افئیرزشامل ہونگے۔
ارکان صوبائی اسمبلی، سول سوسیائٹی تنظیموں کے ذمہ داروں، علما ء اور وکلا ء میں سے بھی ممبران لیے
جائینگے۔کمیشن کے پندرہ ممبران کے چناو میں یہ لازم قرارہوگا کہ ان ممبران میں خواتین کی تعداد تین سے کم نہیں ہوگی اور ان کا چناو کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ ان ممبرز کو بچوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کے بارے میں پہلے سے سمجھ بوجھ ہو۔ خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن 2010 میں بتایا گیا ہے کہ اس کمیشن کا ہر چار ماہ بعد ایک اجلاس ہوگا جس میں کمیشن ممبران صوبے بچوں کو متعلقہ اداروں، شخصیات یہ کسی اور وجہ سے مشکلات اور خطرات درپیش ہوں تو وہ کمیشن کا آگاہ کرینگے۔خیبر پختونخوا میں بچوں کے تحفظ کے لئے اس وقت کسی بھی ضلع میں چائلڈ پروٹیکش یونٹ موجود نہیں ہے، تاہم چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 کی قانون سازی میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں ایک چائلڈ پروٹیکشن یونٹ ہوگا جو بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور استحصال کا جائزہ لے گا اور متاثرہ گھرانوں کے دورے کرے گا اور ان کی تعلیم اور دیگر ضروریات کا بندوبست کرے گا۔ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ خطروں سے دوچار بچوں کی نشاندہی اور ان کی مدد کے لیے کام کرے گا اور اس کا سہ ماہی رپورٹ تیارکرے گا۔ بچوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی، بچوں کو نظر انداز کرنے اور ان کے استحصال روکنے کے لئے چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کی مدد سے مشاورتی کمیٹیاں بنائینگے۔ جیل کی سزا کاٹنے کے بعد خطروں کا سامنے کرنے والے بچے کی رہائی کے بعد تقریباً چھ ماہ تک اس بچے کا پیروی کرے گا۔چائلڈ پروٹیکش یونٹ آگاہی مہم چلائے گا
سول سوسیائٹیز اور بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے عہدیداروں کا کہنا ہے چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری بچوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے جس کے لئے تشہیر کی ضرورت ہے جس کی مدد سے آپ بچوں کو اس بات کی تلقین کریں کہ کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر وہ خود کو کیسے محفوظ کرینگے اور اس حوالے سے والدین کی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔ تاہم آگاہی مہم کے حوالے سے چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبائی کمیشن بچوں سے بدسلوکی اور ان کے استحصال کی روک تھام کے لئے آگاہی مہمات چلائینگے۔
چائلڈ پروٹیکشن یونٹ آفیسر کو اختیار حاصل ہوگا کہ کسی ضلع میں کہی بھی بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور ان کا استحصال کا واقعہ پیش آئے تو ملوث فرد یا افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرے۔بچوں کا تحفظ اور مدد کے لئے فنڈ کا طریقہ کار وضاحت کے ساتھ بتایا گیا کہ یہ فنڈ گرانٹ،عطیات اور خیراتی اداروں کے تعاون سے جمع کئے جائیں گے ۔ بدسلوکی اور استحصال کے شکار ہونے والے بچوں کو انصاف، تحفظ اور بچوں کی ذہن سازی کے لئے چالڈ پروٹیکشن کورٹس بنائے جائینگے تاہم اب تک صرف تین اضلاع پشاور، مردان اورایبٹ آباد میں یہ خصوصی عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔ قبائلی ضلع مہمند میں آئندہ مہینوں میں اس کا افتتاح متوقع ہے۔چالڈ پروٹیکشن ایکٹ 2010 میں خطرے کے شکار بچے کی معلومات کی اخبارات اور میگزین میں اشاعت کی ممانعت ہوگی۔
“خیبرپختونخواکےغیرمحفوظ بچے اورغیرفعال چائلڈ پروٹیکشن کمیشن، تحریر عبدالبصیر قلندر” ایک تبصرہ