پاکستان کی معیشت بحران کا شکار: عوام پس رہے ہیں، حکمران مزے میں!
خصوصی رپورٹ: دی خیبر ٹائمز
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے، جہاں ایک طرف مہنگائی، بے روزگاری اور ٹیکسوں کا بوجھ عام شہری کی زندگی اجیرن بنا چکا ہے، تو دوسری طرف حکمران اشرافیہ کی عیاشیاں، بے مقصد کمیٹیاں، غیر ضروری غیر ملکی دورے اور بے حساب فنڈز کا ضیاع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
معاشی زوال اور قرضوں کا بوجھ
ملک کا مجموعی قرضہ خطرناک حدوں کو چھو چکا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق:
مجموعی قرضہ: 80,000 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے
بیرونی قرضے: 130 ارب ڈالر سے زائد
ہر شہری کا انفرادی قرضہ: تقریباً 3 لاکھ روپے سے زیادہ
قرضوں کے اس بوجھ کا بڑا حصہ نہ صرف پرانے قرضوں کی ادائیگی میں جا رہا ہے بلکہ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور کرپٹ نظام نے مالی وسائل کو عوام تک پہنچنے سے پہلے ہی “کھا” لیا ہے۔
کرپشن: ایک کھلی حقیقت
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا کرپشن انڈیکس بدستور منفی رجحان کا شکار ہے۔ ہر شعبے میں کرپشن نے اداروں کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ حکومتی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں مگر ان کے نتائج صفر۔ وزراء کی شاہانہ زندگی، مہنگی گاڑیاں، بیرون ملک علاج اور تعلیم – سب کچھ عوام کے پیسوں سے، لیکن عوام کے لیے کچھ نہیں۔
ٹیکسوں کا طوفان، عوام چیخ اُٹھے
بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں
روزمرہ اشیاء پر جی ایس ٹی اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دی گئی
متوسط اور غریب طبقہ بری طرح متاثر ہے
چھوٹے کاروبار بند ہو رہے ہیں، فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، بیروزگاری عروج پر ہے
حکومتی فضول خرچیاں اور بے نتیجہ اقدامات
ایک طرف ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے، دوسری طرف:
غیر ضروری مشاورتی کمیٹیاں
ہر وزیر کے ساتھ درجنوں مشیر
کروڑوں کے ترقیاتی فنڈز سیاسی بندر بانٹ کی نذر
آئی ایم ایف کے کہنے پر پالیسی، مگر حکومتی فضول اخراجات میں کوئی کمی نہیں
عوام کا غصہ، بے بسی اور مایوسی
عام شہری سوال کر رہا ہے:
“کیا ہم صرف ٹیکس دینے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟”
“کیا ہمیں جینے کا حق بھی نہیں؟”
“ہم کب تک حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن کی قیمت چکاتے رہیں گے؟”
حل کیا ہے؟
شفاف احتسابی نظام
بجٹ کا ازسرنو جائزہ
فضول اخراجات میں فوری کمی
مقامی وسائل سے ریونیو بڑھانے کی مؤثر حکمت عملی
تعلیم و صحت کے شعبے کو ترجیح
قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے پائیدار معاشی پالیسیاں
–
پاکستان کو آج ایک ایسا مضبوط اور شفاف نظام درکار ہے جو عوامی خدمت کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔ اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ معاشی بحران ایک قومی بقا کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ عوام کا صبر جواب دے چکا ہے اور اب صرف نعروں سے بات نہیں بنے گی۔