فضائل طالبان کا درس دینے والے ممالک طالبان کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟

پشاور ( دی خیبرٹائمز خصوصی رپورٹ ) افغانستان کے شہر قندوز کے بعد قندہار کو ٹارگٹ کیا گیا، مگر پھر بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ؟؟
افغان طالبان ( امارت اسلامی افغانستان ) کو افغانستان کا کنٹرول سنبھالے 2 ماہ گزر گئے، اس دوران امارت اسلامی افغانستان نے بار بار دنیا کو باور کرایا کہ وہ کسی بھی صورت دوحہ امن معاہدے کی کسی ایک شق کی بھی خلاف ورزی نہیں کرینگے، ان کا دعویٰ ہے کہ اب وہ سابقہ دور والے طالبان نہیں رہے بلکہ ہمسایہ ملک پاکستان کی طرز پر تبدیلی کے دعوے کا سافٹ ویئر اپڈیٹ ہو گیا ہے، مگر 2 ماہ گزرنے کے باوجود کوئی بھی ملک ان کا وجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں،
پاکستان ، روس اور چین کا میڈیا پہلے ایک مہینے مسلسل فضائل طالبان کا ورد کرتا رہا، اور ہم سمجھے کہ کسی آئیں بائیں شائیں سے قبل ہی یہ ممالک افغان طالبان حکومت کو سب سے پہلے تسلیم کرینگے اور اس کے بعد باقی دنیا ان کو تسلیم کرنے کیلئے آئیگی؟؟ پاکستان ، چین اور روس جس انداز سے سرزمین افغانستان میں طالبان حکومت کے فضائل سناتے رہے، ایسا لگ رہا تھا کہ شاید اب چائنا ، روس اور پاکستان اپنی پارلیمنٹس بھی انہیں حوالے کرینگے اور افغانستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان کو جلد ہی شہر اقتدار اسلام آباد آنے کی دعوت دینے والے ہیں، یغور والے چائنا کے شہر شنگھائی آنے کی دعوت دینگے؟ اور اسی طرح روس بھی خوب پیش پیش تھا،
مگر 2 ماہ گزرنے کے باوجود بھی افغان طالبان کو یہ نہیں معلوم کہ ان کے دوست ان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں، وہ ان کے وجود کو کب تسلیم کرنے کیلئے عملی اقدامات شروع کرینگے، افغان طالبان نے بار بار کہا ہے کہ اب وہ افغانستان میں کام کرنے والی غیر ملکی این جی اوز اور غیر ملکی سفارتکاروں کو محفوظ ترین افغانستان دینگے، سرمایہ کاری کرنیوالے دیگر ممالک کو افغانستان میں ہر قسم کا پر امن ماحول فراہم کیا جائیگا،،،
لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے دوستوں نے یوٹرن اختیار کر لیا ہے، بلکہ ترکی وہ پہلا ملک ہے جس نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، ابھی دو مہینے کے دوران ہی افغانستان میں کئی سنگین اور خطرناک حملے ہو گئے ہیں، ان حملوں نے افغانستان میں طالبان کے کئے گئے امن و امان کے دعووں کے برعکس ان کی سیکیورٹی پر سوالات اٹھانے شروع کر دیئے ہیں ؟؟
سوشل میڈیا پر افغان شہریوں نے طالبان پر سکیورٹی کے حوالے سے تحفظات اور سوالات اُٹھانا شروع کر دیئے ہیں، حالیہ حملے کہیں اور نہیں بلکہ اہل تشیع کی امام بارگاہوں میں کئے گئے ہیں، عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر افغانستان کی مساجد محفوظ نہیں تو سفارت خانے یا غیر ملکی سرمایہ کار کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں؟؟
اگر کسی ملک سے اس کے مقامی سرمایہ کار چلے جائیں ؟؟ تو باہر سے کون آنے کو تیار ہو گا؟؟
افغانستان یا امارت اسلامی افغانستان کے قریبی دوست سمجھے جانیوالے پڑوسی اور دوست ممالک ان کے وجود کو تسلیم کرنے کی بجائے آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں تو دور کا کون سا ملک آئیگا؟
اگر ابھی تک وہ ممالک (امریکہ و اتحادی) انہیں تسلیم نہیں کر رہے جنہوں نے افغانستان کا اقتدار طالبان کے ہاتھ میں دیا تو دیگر ممالک بھی ضرور سوچیں گے ؟
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دن بھر ہزاروں شہری بینکوں کے سامنے لائنوں میں کھڑے نظر آتے ہیں، بینکوں میں رقم نہیں اور صارفین بغیر رقم وصولی واپس چلے جاتے ہیں، جہاں فاقوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، سرکاری محکمے ابھی تک مکمل فعال نہیں، اگر فعال ہیں تو ملازمین کو تنخواہیں کون دے گا؟ کیونکہ رقم تو ہے نہیں !!
افغانستان سے پشتو ، دری ، ازبک اور تاجک گلوکار اور آلات موسیقی بجانے والے فنکار فرار ہو گئے ہیں جن میں سے 50 سے زائد خاندان پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر پشاور پہنچ گئے ہیں، جہاں پہلے ہی معاشی بدحالی نے شہریوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، افغان گلوکار یا موسیقی کے مختلف فنکار اب پشاور میں بھی انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان لوگوں کے افغانستان چھوڑ جانے کے بعد طالبان کے ہوتے اب افغانستان میں انٹرٹینمنٹ نام کی کوئی چیز نہیں رہی،
مختصر یہ کہ جس کسی کو بھی افغانستان سے نکلنے کا راستہ ملا وہ نکل گیا ، مگر ایسے خاندانوں کی تعداد لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے جو افغانستان کو خیرباد کہنے کو ترس رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ باقی رہ جانے والے جنگوں سے چور افغان شہری کیا ملک سے چلے جائیں گے؟؟ کیونکہ اب تو وہ گھر سے باہر نکلنے کا بھی نہیں سوچ سکتے، اکثر شہروں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ شہری دو وقت کے کھانے کیلئے اپنا گھریلو ساز و سامان بیچنے کو مجبور ہو چکے ہیں جس کیلئے لوگ سٹالز لگائے بیٹھے ہیں، افغانستان بھر میں اگر کہیں دیہاڑی دار مزدور طبقہ کام کر رہا ہے تو وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ یہاں اب کوئی بھی پیسہ خرچ کرنے کو تیار نہیں، ایسی صورتحال میں عام شہری کی زندگی مسائل سے دوچار ہو چکی ہے،
ادھر طالبان مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ داعش کی شکل میں موجود عناصر کسی کے لئے خطرہ نہیں ، مگر کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ خطرہ موجود ہے، اور حالیہ دو حملوں میں طالبان پر یہ خطرہ واضح بھی کر دیا گیا ہے ۔۔۔ !!

اپنا تبصرہ بھیجیں