سیاحت میں سیاست کی غلطی اور پے درپے سیاسی ٹویٹس؟ ٹویٹس سے لوگوں کو اکسانے والے بھی کم ذمہ دار نہیں ۔۔ خصوصی تحریر: عماد سرحدی

خصوصی تحریر: عماد سرحدی
مری میں سال 2022 کی برفباری جنوری میں ہی اتنی جانیں لے گئی کہ سیاحت کانام سن کر خوف آنے لگا ہے،سردی سے ٹھٹھرتے لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ ہی اس سفید جہنم کی بھینٹ چڑھ گئے جس کا انتظام قدرت نے کیا لیکن ایندھن فراہم کرنے والے وہ انتظامی ادارے ہیں جو سیاحت کے لئے سہولیات فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں،اس میں موسم کی صورتحال کی پیشگی آگاہی، روڈ سیفٹی اور ٹریفک پولیس سمیت جی ڈی اے، مری ڈویلپمنٹ اتھارٹی غرض وہ سب شامل ہیں جو برفانی طوفان کی پیش گوئی سے لیکر اس طوفان کے ماروں کی 20۔25 لاشیں لینے تک غفلت کی نیند سوتے رہے۔ شدید سردی میں پھنسے ان سیاحوں میں سے ہر ایک کی جان قیمتی ہے، ان سب قیمتی جانوں کو بروقت بچا لیا جاتا اگر حکومت کے ادارے دس لاکھ گاڑیوں کے مری داخلے پر جاگ جاتے۔ ایبٹ آباد سے مری تک گلیات کے اس پورے چکر میں کہیں پر کسی کو چیک میٹر لگانے کی توفیق نہیں ہوئی جو استعداد سے زیادہ سیاحوں کو گلیات داخل ہونے سے روکتا،کوئی چیک پوسٹ،کوئی پولیس اہلکار یا اسی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دس بارہ مقامی اہلکار سڑک پر نکل آتے اور بیرئیر لگا کر مسافروں کو جانے سے بروقت روک دیتے تو اتنا بڑا سانحہ رونما نہ ہوتا۔اتنی سیاحت پر فخر سے اترانے کی جگہ حکومت رسک مینجمنت پر ہی ساتھ توجہ دے دیتی تو پھول سے بچوں اور انکے اہل وعیال کی ترس کھاتی لاشیں دیکھنے کو نہیں ملتی جو صبح طوفان تھمنے پر کسی کے موبائل فون سے ایسی وائرل ہوئیں کہ سارا دن میڈیا نے اسے دکھادکھا کر ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے سر پیٹتا رہا۔سیاحت کے نام پر سیاست کے شوق میں فواد چوہدری اور انکی ساری ٹیم یہ بھول گئی کہ آپ کی پے درپے ٹویٹس کتنی ہی قیمتی جانوں کا مذاق اڑارہی ہیں جن کا مداوا اب کوئی نہیں۔اس بدانتظامی کا سب سے بڑا محرک خود حکومت اور اس کے ادارے ہیں جو فواد چوہدری ہی کی طرح دو چار سیاحوں سے کیسا گزرا سفر ۔اور کیسا لگا نتھیاگلی آکر ٹائپ کے سوال پوچھ کر دو چار منٹ کی ویڈیوز جی ڈی اے کے پیج پر لگا کر صاحب کو۔پھر صاحب کے صاحب کو خوش کرنے میں مصروف ہیں، طوفان کیا شروع ہوا ساری پی آر چھوڑ کر جی ڈی اے والے بھی مسافروں کو سڑکوں پر چھوڑ کر خود لمبی تان کر سو گئے۔وہ مسافر جو اپنی گاڑیوں کو کسی قریبی بستی تک پہنچا سکے وہ تو بچ گئے اور وہ تمام سیاح جو غیرآباد جگہ پر برفانی طوفان میں پھنس گئے انہیں مدد کیلئے کسی سرکاری اہلکار یا ذمہ دار محکمے کے رضاکاروں کی بے حسی لے ڈوبی۔جس نے بھی کہا صبح دیکھی جائے گی اس نے ہمیں اگلے دن کا وہ دلدوز منظر دیکھنے کیلئے چھوڑ دیا جو گاڑیوں میں رقص کرتی موت کو موبائل کیمرے کی مدد سے عکس بند ہوگیا۔نہ روڈ سیفٹی، نہ ٹریول ایڈوائزری اور نہ ہی سڑکیں بند کرکے،اور لوگوں کو اس سرد جہنم میں جانے سے روک سکا تو اب غفلت کس کی ہوئی۔عوام پر الزام رکھنے والے یہ جان لیں کہ جس طرح کی ٹورازم کا ڈھنڈورا پچھلے 3 سالوں سے پیٹا گیا اس کے مطابق کونسی سہولت سیاحوں کیلئے نئی تجویز کی گئی ہیں کہ وہ بھی آگہی پاسکیں۔ایک پرسنل کار کے مقابلے میں 4 رینٹ کی گاڑیاں مری نتھیاگلی روٹ پر آتی ہیں تو ایسے اللے تللے کرنے والوں کیلئے ضروری نہیں کہ سب کے سب کو ہوٹل مل جائے،جو جو لوگ دیکھی جائے گی کہہ کر گھروں سے نکل گئے اور راستے میں انہیں موسم کے پیش نظر کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ملا تو پھر سب نے دیکھ بھی لیا کہ کیسے سرد موسم قہر خداوندی بن سکتا ہے،اگر اس سے بچنے کے اسباب پورے نہ ہوں۔فواد چوہدری صاحب! اس المناک سانحے کے بعد بھی کیا سیاحت ٹویٹس اور زبانی جمع خرچ پر ہوگی یا لاجسٹک سہولیات اور اطلاعات کی فوری اور بروقت رسائی کے نظام پر بھی توجہ دی جائے گی۔وہ کونسی دو چیزیں ہیں جو بروقت کرلی جاتیں تو اتنی جانوں کو ملکہ کوہسار مری میں موت کی وادی میں جانے سے بچایا جا سکتا تھا۔ہوٹل مالکان نے اس دوران مجبوری آور کسمپرسی کے شکار سیاحوں کی جو درگت بنائی،کیا یہ سب کنٹرول کرنے والے کوئی آسمان سے اتریں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاحت میں سیاست کی غلطی اور پے درپے ٹویٹس سے لوگوں کو اکسانے والے بھی کم ذمہ دار نہیں۔ فواد چوہدری صاحب! یہ ایک ٹویٹ سوچ سمجھ کر اس کیلئے بھی۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں