باچاخان کےسرخ پوش سپاہیوں کی ماضی کی عظیم قربانیاں، تحریک کا لڑکڑاتا مستقبل۔ تحریر فخر کاکاخیل

فخر افغان بنام فخر کاکاخیل
عزیز من،
امید ہے کہ مزاج بخیریت ہوں گے۔
گزشتہ رات یہاں پشتو شعراء و ادباء کی ایک محفل تھی۔ میں یہاں عموماً ان محافل سے اجتناب برتتا ہوں لیکن عالم برزخ میں پشتو سنتا ہوں تو کیا کروں دل کھنچا چلا جاتا ہے۔ وہاں جا کر دیکھا تو اجمل خٹک، شادمحمد میگے، خیال میاں(فخر قوم میاں صیب)، غنی خان، مہتاب ضمیر اور آپ کے والد گرامی میاں عنوان الدین کاکاخیل براجمان تھے۔ میں پہنچا تو سارے تعظیما کھڑے ہو گئے میں نے پوچھا کہ ولی خان کہاں ہیں؟ تو سب نے پہلے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ میں نے کہا اس میں حیرانی کی کیا بات ہے تو اجمل خٹک نے مسکرا کر کہا “بابا آپ کی یہاں بھی اپنی اولاد سے ملاقات نہیں ہوتی!” میں نے کہا کبھی کبھی ہو بھی جاتی ہےمیں آج کل سپین ملنگ کے ساتھ بابڑہ شھداء کے ساتھ زیادہ تر وقت گزارتا ہوں۔ میاں صاحب نے آگے بڑھ کر کہا “بابا، وہ کل سے مفتی محمود اور اکبر بگٹی کو لے کر ذوالفقار علی بھٹو کے پاس بیٹھے ہیں اٹھارویں ترمیم کے حوالہ سے آج کل بڑی پریشانی ہے۔ میں نے کہا کہ ہم نے جو کرنا تھا کر چکے اب یہ دنیا والوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے حق اور آزادی کو برقرار رکھیں۔ یہ حق ان کو پلیٹ میں کسی نے نہیں دیا بلکہ اس کے لئیے ایک بار تو چارسدہ کربلا بنی، بابڑہ میں سینکڑوں پشتونوں نے شھادتوں کا نذرانہ پیش کیا۔ لیکن بدقسمتی سے آج بہت کم لوگ ان قربانیوں سے واقف ہیں۔ان شھداء کی تاریخ عوام کو یاد رکھنی چاہئیے اس کی باقاعدہ تبلیغ کرنی چاہئیے۔ اس پر اجمل خٹک نے کہا کہ کیوں نہ میں ایک خط لکھوں۔ میں نے کہا اب تو دنیا سے سارے رابطے ٹوٹ چکے ہیں اس پر انہوں نے تمہارے والد صاحب کا اور تمہارا حوالہ دیا کہ آپ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہو۔ میری نظر میں اس پیشے کی خاص اہمیت ہے اور یہ وجہ بنی آپ سے مخاطب ہونے کی۔
عزیزم،
جمعرات کا دن بارہ اگست 1948 وہ تاریخ ہے جو زمین پر بسنے والے ہر پشتون، جمہوریت کی جنگ لڑنے والے ہر سپاہی اور دنیا کے ہر مظلوم کو یاد رکھنا چاہئیے۔ پاکستان کی پہلی سالگرہ تھی، پختونخواہ میں ڈاکٹر خانصیب کی حکومت کو آمرانہ طریقہ سے ہٹایا جا چکا تھا، میں جیل میں تھا اور خدائی خدمتگار عدم تشدد کی پالیسی کی بنا پر پرامن احتجاج کر رہے تھے۔ اس روز فیصلہ کیا گیا کہ چارسدہ میں واقع بابڑہ کے مقام پر ایک مسجد میں تمام کارکن اکھٹے ہوں گے۔ کارکن پہنچے تو دیکھا کہ مسجد پر پولیس نے قبضہ کرکے اسے عوام کے خلاف مورچہ بنا دیا تھا۔ صوبہ میں انگریز گورنر تھا جبکہ سرکار قیوم خان تھے۔ انگریز کو مسجد کے تقدس سے کچھ لینا دینا نہیں تھا اور قیوم خان کو تو خدائی خدمتگاروں سے چڑ تھی۔ لوگ اکھٹے ہوئے تو سپین ملنگ نے پرچم اٹھا کر احتجاج کیا جس پر اسے دھڑا دھڑ گولیاں ماری گئیں۔ پھر کیا تھا سرکار کی گولیاں اور خدائی خدمتگاروں کے جسم۔۔۔اہ و بکا۔۔۔پورا بابڑہ خون سے لت پت۔ اس قتل عام میں نا یہ دیکھا گیا کہ بچے ہیں اورنا یہ دیکھا گیا کہ خواتین یا بزرگ۔۔۔بس گولیوں کی برسات تھی۔ قریبی گھروں سے خواتین قران پاک سروں پر رکھ کر نکلیں لیکن سرکار کو جیسے پشتونوں کا خون منہ کو لگ چکا تھا قران مجید بھی گولیوں سے چھلنی کر دیئے گئے۔ لاشوں اور زخمیوں کو قریبی ندی میں پھینکا گیا تاکہ بچنے کی امید ہی نہ رہے۔ وہ رات جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات پشتونوں کی زندگی اور تاریخ کی سب سے لمبی اور سب سے بھاری رات تھی۔ چارسدہ، مردان، صوابی غرضیکہ وادی پشاور کا شاید ہی کوئی خاندان ہو جن کے گھر ماتم نہ ہوا ہو۔ میں اس کرب کو آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ توبہ، جس قوم کو میں نے عدم تشدد کے فلسفہ پر زندگی گزارنے کی نصیحت کی اسے گولیوں سے چھلنی لاشیں دی گئیں۔ تاریخ کا یہ ستم بھی دیکھو کہ مقدمات بھی شھداء پر درج ہوئے اور ان کے جسموں میں پیوست گولیوں کے اخراجات کا جرمانہ بھی ان شھداء پر لگا۔ کیا ایسا یزید نے کیا تھا؟ مجھے تو نہیں لگتا۔ ساڑھے چھ سو شھداء کے جنازے اٹھنے پر حاکم وقت قیوم خان نے ایوان میں کہا کہ یہ تو اسلحہ بارود ختم ہو گیا وگرنہ تو وہ اس روز اس جگہ ہر ذی روح کو موت کے گھاٹ اتاردیتے۔ میں نے تو یہ لفظ شمر کے منہ سے بھی نہیں سنے کیونکہ ہوتے تو تاریخ میں اس کا ذکر ضرور ملتا۔ میں نے تو پشتونوں کی اس جماعت کا نام ہی خدا اور خدمت پر رکھا تھا۔ خدا کو خدمت کی ضرورت نہیں خدا کے بندوں کی خدمت ہی خدا کی خدمت ہے۔ قیوم خان نے خدا کے خدمتگاروں کا خون بھایا۔ اس روز آسمان نے چارسدہ میں کربلا بنتے دیکھا۔ افسوس بہت کم پشتونوں کو اس کا پتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے : افغانستان میں کیا ہونے جا رہا ہے؟ تحریر : سید فحر کاکا خیل.

عزیزم،
ماتم سے یزید تو نہیں مرتا لیکن حسین زندہ رہتا ہے۔ آج بہت کچھ بدل چکا ہے بابڑہ بھی وہ بابڑہ نہیں رہا۔ آج تو جناح صاحب بھی پاکستان کو دیکھتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں جو ملک انہوں نے اقلیت کے لئیے بنایا تھا آج اقلیت کو ہی سولی پر چڑھایا گیا ہے۔ پہلے بارڈر کے اس پار اسلام کے نام پر مسلمانوں کا خون بھایا گیا آج بارڈر کے اس پار اسلام کے نام پر مسلمانوں کا خون بھایا جا رہا۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ پاکستان اسلام کے نام پر واقعی بنا تھا یا نہیں لیکن آج اسلام کے نام پر اس کا خاتمہ ضرور کیا جا رہا ہے۔ کل ایک بلوچ سردار سے بات ہو رہی تھی فرمانے لگے بلوچ باشندے غائب کئیے جا رہے ہیں میں نے کہا ہماری پوری قوم غائب ہو رہی ہے ان کا رونا روؤں یا جناح صاحب سے آپ کے مسئلہ پر جرگہ کروں۔ جناح بچارے خود پریشان ہیں۔
عزیز جاں
مجھے کسی نے کہا تھا کہ نسیم (بی بی) نے ایک بار غصہ میں کسی کو ڈانٹا یہ کہہ کر کہ اگر پشتونوں میں غیرت ہوتی تو قیوم خان کشمیری طبعی موت نہ مرتا۔ کبھی کبھی خالص افغان خون جوش مارتا ہے تو میں بھی سوچنے لگتا ہوں۔ ادھر ادھر دیکھتا ہوں لیکن شاید قیوم خان کو ادھر نہیں بھیجا گیا۔ خیر میں اس کے لئیے بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ جنت آئے۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ آج عدم تشدد کے پروانے دنیا بھر میں اس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج میرے شدید دشمنوں کو میرے مدفن کا پتا ہے مجھے جانتے ہیں لیکن کیا تمہیں معلوم ہے کہ قیوم کشمیری کہاں دفن ہے؟
بس بابڑہ کے اس ماتمی موقعہ پر یہی کہنا چاہتا تھا۔ سورج ڈوبتا ہے کہیں اور نمودار ہونے کے لئیے، روشنی سے اندھیرے دور کرنے کے واسطے یہ یاد رکھنا اور رابطے میں رہنا۔
فقط
آپ کا فخر
باچا خان
پس تحریر: خط پڑھ کر پتا چلا واقعی مجھے تو قیوم کشمیری کی مدفن کا نہیں پتا جلدی سے گوگل سرچ انجن کی طرف انگلیاں دوڑائیں آخر کو اپنا گورا جو ہوا۔۔۔

2 تبصرے “باچاخان کےسرخ پوش سپاہیوں کی ماضی کی عظیم قربانیاں، تحریک کا لڑکڑاتا مستقبل۔ تحریر فخر کاکاخیل

اپنا تبصرہ بھیجیں