افغانستان پر امریکی یلغار کے بعد طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا، امریکا نے مختلف ممالک میں مقیم ان روشن خیال افغانیوں کو افغانستان لانے اور انہیں اچھے ابھے عہدوں سے نوازنے کا عمل شروع کیا، کوئی حامد کرزئی کی طرح صدر بنا، کوئی مشیر کوئی وزیر کوئی گورنر تو کوئی امریکا کا نمائندہ، عرض یہ کہ باہر سے ایمپورٹ کئے جانے والا ہر افغانی سیاہ وسپید کا مالک بن گیا ۔ سال 2005 میں اپنے کچھ صھافی دوستوں کے ساتھ افغانستان جانے کا اتفاق ہوا ۔اس وقت افغانستان میں صدارتی انتخابات ہونے جارہے تھے، وہاں ایک ایسے افغانی سے ملاقات ہوئی جو پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بطور مہاجر زندگی گزار کر واپس کابل گئے تھے۔ وہ خود بھی کابل کے عدلیہ میں ایک اہم پوسٹ پر تھا، اس شخص سے انتخابات پر بات ہوئی، ویسے تو ہر ایک افغانی سیاسی طور پر ہم سے کہیں زیادہ بالغ النظر ہوتا ہے لیکن نور محمد کی سیاسی بصیرت کو دیکھ کر واقعی میری دلچسپی بڑھ گئی ۔ بریف کیس سیاستدان والی یہ اصطلاح بھی ہم نے پہلی بار نورمحمد سے سنی جس نے بہت سارے ایسے نام لئے جو گذشتہ ایک دو عشروں سے کوئی کینیڈا ، امریکہ جرمنی، اسٹریلیا، یا دنیا کے دیگر ممالک کے مستقل شہریت حاصل کرچکےتھے اور جو وہیں کے ہوگئے ہیں، اس کا کہنا تھا، کہ یہاں مقامی سطح پر بھی بہت سارے قابل اور اچھے عہدوں کیلئے اہل لوگ موجود ہیں، تاہم امریکی حکام باہر سے افغانیوں کو ایمپورٹ کررہے ہیں، میں نے اس سے سوال کیا کہ ان لوگوں کا مستقبل کیسے دیکھ رہے ہیں اور یہ کہ کیا ان لوگوں میں وہ اہلیت ہے بھی کہ جو افغانستان جیسے ملک کے مسائل کو حل کرسکے ؟ تو اس نے کہا کہ امریکا اسے ہاتھ سے پکڑ کر چلائینگے، ایک ایسا دن آئیگا جب امریکی حکام نکل جائینگے تب اس کے ساتھ ان کی بھی رخصتی ہوگی، نورمحمد کہتے ہیں کہ مقامی لوگ انھیں بریف کیس کے سیاستدان کہتے ہیں، افغانستان میں ان کا صرف ایک بریف کیس ہوتا ہے، جس میں ان کے دیگر ممالک کی شہریت پاسپورٹ وغیرہ رکھے ہوتے ہیں، اس بریف کو ہاتھ میں پکڑ کر جہاز میں بیٹھ کر سب کے سب نو دو گیارہ ہوجائینگے کیونکہ ان لوگوں کا افغانستان میں نہ تو کچھ بچا ہے اور نہ ہی انہیں اس سے کوئی دلچسپی ہے ان کا سب کچھ باہر پڑا ہوا ہے اور یہ بس یہاں اپنی “ڈیوٹی” نبھانے ائے ہیں ۔ نور محمد کی باتیں تب تو مجھے کسی خواب کی طرح لگ رہی تھیں لیکن رفتہ رفتہ ان کی باتوں کی صداقت واضح ہوتی جارہی تھی اور افغانستان سے بریف کیسسیاستدان غائب ہوتے گئے ۔
یہ بھی پڑھئے : عمران خان کی کرسی خطرے میں؟ دی خیبرٹائمز خصوصی رپورٹ
اورخاص طور پر دوحہ امن معاہدے کے بعد تو بریف کیس سیاستدانوں کی روانگی کچھ زیادہ ہی تیز ہو گئی ہے اور اکثر اپنے “ابائی” ملکوں کے ٹکٹ لے رہے ہیں کیونکہ ان کا کام شاید افغانستان میں ختم ہو چکا ہے ۔
اتفاق دیکھئے کہ اجکل ہمارے ہاں بھی ویسی ہی صورتحال بن چکی ہے جس میں کابینہ کے اکثر اراکین امپورٹد ہے اور یہی باتیں جو پندرہ سال پہلے افغانستان میں دیکھنے میں ائی تھیں اج یہاں بھی صورتحال وہی بنتی جارہی ہے ۔ حالانکہ یہ لوگ خود کو بھی ایسے ہی پاکستانی سمجھ رہے جس طرح ہم خود کو سمجھ رہے ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ ہمارے ہاں بھی افغانستان کی طرح امپورٹد بریف کیس سیاستدانوں کی کثرت ہے اور جب بھی یہاں حالات ٹف ہو جائیں تو یہ لوگ عمران کان کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوجائینگے کیونکہ ان کا یہاں ایک بریف کیس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ بریف کیس یہاں سے بھرے ہوئے جائینگے یا ان میں صرف ان کے” کپڑے” ہی ہونگے تاکہ وہ باعزت طریقے سے یہاں کے لوگوں کی خدمت کرکے جائینگے ۔