بی آر ٹی اور پشاور شہر کی دہائی۔۔۔ تحریر: عماد سرحدی

وزیراعظم عمران خان ہر وقت جس دیانتداری کا پرچار کرتے ہیں اسکا ایک پہلو خود احتسابی بھی ہونا چاہئے،اپنے آپ کو کامریڈ ظاہر کر کے عوام کے حلقہ اثر سے جان چھڑانے کی پالیسی نے آج تحریک انصاف کو اس عوام سے دور کردیا ہے جس نے وفاق میں ایک بار تو صوبے میں دو بار اس جماعت کو کامیاب کرایا جو کسی معنوں میں اس روایتی سیاست کا منہ کالا کرنے نکلی تھی۔قائدے،قانون،میرٹ اور شفافیت کے ساتھ حکومت کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ جن کی نمائندگی کررہے ہیں اسمبلیوں میں! وہاں عوام کے ترقیاتی منصوبوں اور گلی کوچے کی سیاست بھی اتنی ہی ضروری ہے، شاید یہی سوچ کر ایک میٹرو بس منصوبے سے ملتا جلتا منصوبہ پرویز خٹک کے دور وزارت اعلی میں شروع کیا گیا لیکن حیرت انگیز طور پر اس میں میٹرو کا کوئی کام میل نہیں کھاتا،اب یہ پی ٹی آئی کی خوش قسمتی ہے کہ اگلی بار انکا اقتدار ہو گیا مکمل،جب خان صاحب پورے کے پورے وزیراعظم بن گئے یوں منصوبہ گیا تیل لینے اور سیاست شروع ہو گئی،خیبر پختون خوا سے اقتدار کی سیڑھیاں طے کرکے آنے والی غیر روایتی سیاست کی آمین تحریک انصاف کا پشاور میں سب سے بڑا اشتہار ہے پشاور میں بننے والی بی آر ٹی،جس میں سے ہر کوئی اپنی مرضی کی ترغیب لے سکتا ہے،شہر پشاور کو سمجھنے والوں کو پتہ ہو گا کہ بغیر ہوائی ٹریک کے،بی آر ٹی نے پشاور کی ٹریفک پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا،یہ منصوبہ کہیں سڑک پر ہے کہیں بس پل پر چل رہی ہے اور کہیں ٹریفک کے بیچ میں اس سڑک پر آزادی سے دوڑ رہی ہے جس کی مدد سے پشاور میں پہلے سے موجود سڑکوں کو اور بھی گنجان کرکے چوک کردیا گیا ہے،پرویز خٹک نہ بھی جانیں تو عوام کو اتنا تو پتہ ہے کہ اس کی لاگت بھی 4گنا زائد ہے اس میٹرو سے،جس کے شوق میں پی ٹی آئی کو عوام کے پیسوں کا صحیح استعمال سمجھ میں آیا۔ اس منصوبے میں بدعنوانی ہمارا موضوع نہیں وہ بدانتظامی ہے جس نے رنگ روڈ پر واقع پیر زکوڑی پل سے تاریخی قلعہ بالاحصار تک جی ٹی روڈ کے حسن کا بیڑہ غرق کرتے ہوئے شہر کو حقیقی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔نہ پرویز خٹک کو اسکا پتہ ہو گا نہ محمود خان جن میں ایک نوشہرہ تو دوسرے سوات سے تعلق رکھتے ہیں،مشاورت کا اتنا کم ترین نیٹ ورک پی ٹی آئی کا ہی ہوسکتا ہے جس کی نظر میں وفاق میں حکومت ملتے ہی اس شہر کو مالی اور انتظامی بدعنوانی کے رحم وکرم پر چھوڑتے ہوئے خان صاحب کے ویژن کی تکمیل پر لگا دیا گیا،حقیقت تو یہ ہے کہ بی آر ٹی پشاور جیسے اہم شہر کیلئے ترقی کا زینہ ہوتی اگر اسے اگلے 50 سال کی منصوبہ بندی کے تحت بنایا جاتا،یوں لگتا ہے کہ جیسے پرویز خٹک کو منصوبہ شروع کرنے کی جلدی تھی ،محمود خان کو ڈنڈہ لیکر افتتاح کرنے کی،مینجمنٹ کو حکومت جانے سے مہلت مل گئی اور ٹھیکیدار تین سے چار فیز میں ہر بار بے نقشہ بی آر ٹی کو سیدھا کرتے کرتے اتنا تھک گئے کہ جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر بالآخر بس چلوا کے نکل لئے،اب اس منصوبے میں اتنے جھول ہیں کہ جنہیں قلم بند کرتے کرتے تحریر دم توڑتی جائے گی،پشاور شہر 16 دروازوں میں بند قدیم گندھارا تہذیب کا وہ عکس ہے جسے گلبہار کے دو عجیب و غریب فلائی اوور بنا کر بالاحصار تک ٹریفک کے اژدہام میں خوار ہونے کو چھوڑ دیا گیا ہے تو وہیں پر سٹی سرکلر روڈ پر کوئی بندوبست نہیں کہ نشتر آباد کو چھوڑ کر اندرون شہر کو ملانے والی پوری سڑک پر ایک بھی شٹل سروس نہیں،اگر یہ اس منصوبے کا حصہ نہیں تو اہل پشاور جو قدیم شہر کی فصیلوں میں رہتے ہیں انکی ٹرانسپورٹیشن اس گنجان آبادی سے جی ٹی روڈ تک کیسے ہوگی،اس صورتحال کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ لاہوری،گنج،یکہ توت،کوہاٹی،بیرسکو سے لیکر آسیہ رامداس تک پشاور کے شہری بی آر ٹی کے سفر سے صرف اسلئے محروم ہیں کہ یہ بس صرف انہی علاقوں میں چلتی ہے جہاں سڑکیں کھلی ہیں،حیات آباد اور یونیورسٹی روڈ کے برعکس پشاور شہر کو اس منصوبے سے کوئی فائدہ ہوا اور نہ اس ناقص منصوبہ بندی کے تحت توقع رکھی جا سکتی ہے،پشاور کے 30 کلومیٹر کے ٹوٹل شہر میں اندرون پشاور کے عوام سے یہ زیادتی کس کے کھاتے میں آتی ہے اسکا کھوج تو تب تک نہیں لگے گا جب تک اس منصوبے کی فزیبلٹی کو ازسرنو پرکھا نہیں جاتا جو ہونا اب تو ممکن ہوچکا ہے۔رہی بات جی ٹی روڈ کی تو اس سارے ٹریک پر چمکنی،لاہور اڈہ اور ہشتنگری کے علاوہ کوئی یو ٹرن نہ ہونے سے کم سے کم ٹریفک کا مسئلہ بھی اگلے 20 سالوں تک حل نہیں ہوسکے گا،اب اچھی بات کرلیں تو بڈھ بیر،کوہاٹ روڈ، چارسدہ روڈ اور حیات آباد کیلئے تمام دستیاب شٹل سروس کامیابی سے جاری ہے،فرق صرف اتنا ہے کہ حیات آباد کو چھوڑ کر ان سڑکوں پر واقع تمام علاقے شہر کا سبرب کہلاتے ہیں،یونیورسٹی روڈ بھی گلبہار کی طرح ابھی سے چوک ہے اور یہ تمام مسائل اس منصوبے کو باعث افادیت نہیں باعث اذیت بنارہے ہیں،تحریک انصاف کو انصاف پر اتنا ہی اعتماد ہے تو زمینی حقائق کے تحت فیصلے کریں ورنہ عوام کا پیسہ تو ضائع ہوگاہی آپ کا وہ اعتماد بھی ڈانواڈول نہ ہوجائے جس نے پشاور شہر سے آپکو کلین وکٹری دلوائی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں