وزیراعظم کے معاون خصوصی عاصم سلیم باجوا نے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے، وزیراعظم نے اس بار باجوا کا استعفیٰ قبول کرلیا، اب مسئلہ ان کے سی پیک کے عہدے کی ہے، کہ اس کے عہدے کی سلامتی کا کیا بنے گا؟
عاصم سلیم باجوا کیلئے مسائل اس وقت بڑھنے لگے، جب امریکہ میں پاکستانی صحافی احمد نورانی نے باجوا کے حوالے سے ایک سٹوری شائع کی، اس سٹوری میں عاصم سلیم باجوا پر سنگین قسم کے مالی بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے تھے، شاہ احمد نورانی نے یہ الزام بھی لگایا تھا، کہ جب 2002 میں عاصم سلیم باجوا سابق ڈیکٹیٹر صدر پرویز مشرف کے ٹیم کا کھلاڑی بنا، تب سے ہی ان کے آثاثےبڑھنا شروع ہوگئے ہیں، عاصم سلیم باجوا کے بھائی ندیم باجوا جو اب باجکو نامی کمپنی کے سی ای او ہے، اس سے قبل وہ 2002 میں پاپا جونز پیزا ڈیلیوری بوائے تھے، احمد نورانی کی سٹوری کے مطابق عاصم سلیم باجوا نے اپنے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ آثاثے بنائے ہیں، سٹوری کے مطابق جب وہ سدرن کمانڈر تھےتب سے ہی ان کے دولت اور اثاثے بڑھانے کی کہانیاں شروع ہوتی ہیں، انہوں نے بنکوں سمیت باجوا کے اثاثے اس سٹوری کے تمام حقائق اور الزامات ویب سائیٹ پر شائع کئے تھے۔
پاکستانی میڈیا کی آزادی کی حیثیت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، اس لئے اس سٹوری کو بھی کسی نے نہیں اٹھائی، اور نہ ہی کسی ٹی وی ٹاک شوز میں یہ سٹوری زیر بحث لائی گئی۔ تاہم سوشل میڈیا پر اس سٹوری کو خوب پزیرائی حاصل ہوئی، جس کی وجہ سے ستمبر 2020 کے شروع ہی میں عاصم سلیم باجوا نے وزیراعظم عمران خان کو ان کی معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ بھیج دیا، جس کے ساتھ 4 صفحات پر مشتمل ایک وضاحت بھی پیش کی، تاہم عمران خان نے اس استعفیٰ کو قبول نہیں کیا، وزیراعظم نے ان کی معزرت قبول کرتے ہوئے احمد نورانی کی سٹوری میں ان پر لگائے جانے والے تمام الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایات کی۔
ستمبر کو اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس میں بھی باجوا پر لگائے جانے والے الزامات پر کافی بحث کی گئی، جہاں آل پارٹیز کے26 نکات پر مشتمل اعلامیہ میں کہا گیا تھا، کہ عاصم سلیم باجوا کے آثاثے کی نہ صرف تحقیقات کی جائے، بلکہ ان کے پاس جو عہدے ہیں اس سے انہیں الگ کردیا جائے تاکہ وہ اس پر اثر انداز نہ ہو۔
مسلم لیگ ن کا موقف اس حوالے سے بالکل واضح ہے، اور پی پی پی بھی اس اعلامئے کے ساتھ متفق نظر آتی ہے، جبکہ دیگر جماعتوں نے بھی اس اعلامئے پر دستخط کئے ہیں،
اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے، کہ ایسی کیا مجبوری تھی، کہ عاصم سلیم باجوا ان کے اس عہدے سے الگ ہونا پڑا؟؟
ایک زرائع کا کہنا یے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے16 اکتوبر کو گجرانوالہ میں ہونے والے جلسے میں تمام اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں کا عمران خان کے کھلاڑیوں میں سب سے پہلے عاصم سلیم باجوا ان کے تنقید کا پہلا شکار ہے، جسے وہاں خوب تنقید کا شکار بننے جارہا تھا۔
عاصم سلیم باجوا کے قریبی حلقوں نے انہیں مشورہ دیا ہے، کہ گوجرانوالہ جلسے سے قبل ہی اگر وہ عوامی عہدے سے مستعفی ہوجائے تو اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی تنقید سے شائد بچ سکے؟
اس کے علاوہ عاصم سلیم باجوا سی پیک کے چیئرمین بھی ہے، تاہم سی پیک آرڈینینس کا میعاد جولائی ہی میں ختم ہے، سی پیک اتھارٹی کے حوالے سے اب بہت سارے قانونی سوالات موجود ہیں؟؟
زرائع کے مطابق 18یا 19 اکتوبر کو کو ہونے والے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں سی پیک کا بل ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے، جو دونوں ایوانوں میں پیش کیاجائیگا،
زرائع کا یہ بھی کہنا ہے، کہ پیپلز پارٹی کے سیکنڈ لیئر قیادت سے عاصم سلیم باجوا کے تعلقات کافی بہتر ہے، اور سی پیک کمیٹی میں موجود جو متحرک آراکین موجود ہیں ان سے بھی باجوا کے قریبی تعلقات ہے، یہ خیال کیا جارہاہے، کہ سینیٹ کے اند حکومت کو قانون پاس کروانے کا مسئلہ ہوتا ہے، وہاں سی پیک کا بل پاکستان پیپلز پارٹی کے تعاؤن سے وہ بل بھی پاس کرنے کا امکان موجود ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے، کہ اس ملک کے وزیراعظم اسلام آباد میں وکلا کنونشن میں اپنے خطاب میں علل اعلان یہ بات کریں،، کہ آئی ایس آئی کے چیف اگر منتخب وزیراعظم سے استعفیٰ مانگیں ؟؟؟ کیونکہ اس کے ساتھ ان کے رشوت کے ثبوت موجود تھے؟؟
اگر یہ بات ہے تو عاصم سلیم باجوا کے اثاثوں کے حوالے سے مکمل خاموشی کیوں تھی؟؟
صرف عاصم سلیم باجوا نے اتنی واضح کی ہے، کہ امریکہ میں ان کی اہلیہ کی اثاثے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، جو کہ 20 جون سے ان سے الگ ہوئی ہے۔
رواں سال اپریل کے مہینے سے وزیراعظم پر میڈیا کا پریشر بڑھتا گیا، کہ ان کے مشیروں اور معاون خصوصی کے اثاثے بھی ویب سائیٹ پر ہونی چاہئے۔۔
تین ماہ بعد بھی مشیروں اور معاونین کی اثاثے ویب سائیٹ پر نہ آسکے، تاہم جب عاصم سلیم باجوا نے خود کو ان کے امریکہ میں اثاثوں سے بے دخل کردیا، تب ویب سائیٹ پر تمام مشیروں اور معاون خصوصی کے اثاثے ویب سائیٹ پر آنا شروع ہوگئے، ان اثاثوں کی تفصیل ویب سائیٹ پر آنے کے بعد عاصم سلیم باجوا کی ایک ڈبل کیبن گاڑی کی قیمت 30 لاکھ بتائی گئی تھی۔۔۔ جبکہ مارکیٹ میں اس گاڑی کی اصل قیمت تین کروڑ روپے سے بھی ذیادہ تھی، اس کے بعد ہی عاصم سلیم باجوا مسلسل تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔۔
جب احمد نورانی کی باجوا کے حوالے سے سٹوری سامنے آئی ،،،، تب پاکستانی عوام کی انگلیاں دانتوں میں آگئیں، اور ہاتھ سروں پر چلے گئے، کہ اتنےکم عرصے میں اتنی ذیادہ کمائی بھی کوئی کمائی ہوتی ہے؟؟ یا کچھ اور ؟؟
عاصم سلیم باجوا کی جانب سے ان پر لگائے جانے والے ایسے سنگین الزامات کی کوئی وضاحت نہیں آئی،،، سیوا اس کے کہ یہ (((( سب جھوٹ ہے ))))