انٹرپراونشل کھیلوں کے مقابلے، نئے کھلاڑیوں کیلئے حوصلہ افزا اقدام ۔ تحریر: مسرت اللہ جان

صوبائی دارالحکومت پشاور اور چارسدہ کے مختلف کھیلوں کے میدانوں پر سات مختلف کھیلوں کے مقابلے جاری ہیں -ان کھیلوں میں بیڈمنٹن ، ٹیبل ٹینس ، والی بال ، اتھلیٹکس ، سکواش ، ہاکی اور فٹ بال کے مقابلے شامل ہیں جونیئر سطح پر ہونیوالے ان مقابلوں میں بلوچستان ،سندھ ، پنجاب اور گلگت بلتستان کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام ہونیوالے ان مقابلوں کی نگرانی نہ صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کوچز کررہے ہیں بلکہ کھیلوں کے مختلف ایسوسی ایشنز کے نمائندے بھی ان کھیلوں کی مینجمنٹ کمیٹی کا حصہ ہیں-جس سے کھیلوں کے ان مقابلوں کے بارے میں یہ تاثربھی زائل ہوتا جارہا ہے کہ کھیلوںکا انعقاد صرف ایسوسی ایشنز کا حق ہے اور سپورٹس بورڈ خیبرپختونخواہ کھیلوں کے انعقاد کاحق نہیں رکھتی-

سات مختلف کھیلوں کے ا ن مقابلوں کا انعقاد ایسوسی ایشن کا حق ہے یا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا ، یہ الگ بحث ہے لیکن گذشتہ دو دنوں سے جاری ان کھیلوں کے مختلف مقابلوں میں سب سے اچھی بات جو کہ خیبر پختونخواہ کے مختلف کھیلوں کی نظر آرہی ہیں کہ خیبر پختونخواہ کے انڈر 16 کے کھلاڑی بشمول لڑکے اور لڑکیاں گولڈ میڈل میں ٹاپ پوزیشن پر ہیں اور اس سے اچھی بات یہ کہ یہ سارے کے سارے مختلف اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں ان میں کسی خاص ضلع سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی کا زو ر نہیں ، اور یہ ایک برابری کی سطح پر مواقع دینے کی بات ہے جو کہ ان مقابلوں میں دیکھنے کو مل رہی ہیں -دیگر صوبوں سے آنیوالے کوچز اور کھلاڑی بھی اس بات پر خوش ہیں کہ کرونا کی موجودہ صورتحال میں جہاں ہر شعبہ کے زندگی کے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوا تھا ان مقابلوں نے وہ خوف بھی ختم کردیا اور کھیلوں کے انعقاد میں ایس او پیز پر عمل پیرا ہونے سے یہ تاثر بھی زائل ہوگیا کہ اگر کھیلوں کے میدان آباد رکھنے ہیں تو کھلاڑیوں اور مینجمنٹ دونوں کو ایس او پیز پر عمل درآمد کرنا ہوگا-

ان مقابلوں کاباقاعدہ افتتاح کیلئے کوئی خاص تقریب منعقد نہیں کی گئی جو کہ احسن اقدام ہے اور مختلف ایسوسی ایشن کے نمائندو ں نے کھیلوں کے سپاٹ پر پہنچ کر باقاعدہ افتتاح کیا -چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز نے قیوم سپورٹس کمپلیکس میں ہاکی کے مقابلوں کا آغاز کیا-اس موقع پر انہوں نے کھلاڑیوں سے بھی بات چیت کی جبکہ بعد ازاں میڈیا سے بھی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت موجودہ حالات میں بھی کسی بھی قسم کی بندش نہیں چاہتی تاہم اس کیلئے میڈیا سمیت تمام شعبہ زندگی کے لوگوں کو کرونا کی موجودہ صورتحال میں ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا-چیف سیکرٹری کا یہ بیان نہ صرف کھیلوں کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے خوش آئند ہے بلکہ تجارت ، معیشت سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسے خوب سراہا ہے-

کھیلوں کے افتتاح کے دن سیکرٹری سپورٹس علی الصبح سٹیڈیم پہنچے تھے کسی زمانے میںمحکمہ صحت میں اہم پوسٹ پر تعینات سیکرٹری سپورٹس نے کھیلوں کے مختلف سپاٹ کا دورہ کیا ، بعض کھلاڑیوں کے زیادہ عمر ہونے سے متعلق سوال بھی کئے-کیونکہ سندھ ، پنجاب کے مختلف کھیلوں میں زائد العمر کھلاڑیوں کی انڈر 16 میں کھیلنے کی باتیں چل رہی تھی جس پر انہیں بتایا گیا کہ فارم ب پر ہی ان کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا ہے بعد ازاں سیکرٹری سپورٹس نے قیوم سپورٹس کمپلیکس میں واقع سکواش کورٹ کا دوہ کیا- جہاں انہوں نے ایک اچھی مثال قائم کرتے ہوئے سکواش کورٹ جانے سے قبل شوز تک اتار دئیے کہ کورٹ کو صاف ہونا چاہئیے ا نکی تقلید محکمے کے افسران نے کردی تاہم کھلاڑیوں اور صحافیوں نے اس معاملے میں آنکھیں بند کرلیں اور گندے شوز کیساتھ کورٹ میں داخل ہوگئے- خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے – سکواش کورٹ کے نمائشی مقابلے کے دوران کھلاڑی خاموش بھی رہے جس پر سیکرٹری سپورٹس نے کھلاڑیو ں کو تالیاں بجانے کا کہااور کہاکہ ہم تو مہمان نواز لوگ ہیں-قیوم سپورٹس کمپلیکس میں واقع سکواش کورٹ جس کا افتتاح وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے کیا تھا اور ایک خطیر رقم اس کیلئے مختص کی گئی تھی کے کورٹ روم ایک کی چھت کی سیلنگ سیکرٹری سپورٹس کی نظروں سے اوجھل رہی جوچند ماہ میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہیں- جس کی طرف صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے-

پشاور میں کھیلے جانیوالے ان مقابلوں کی ایک اچھی بات جس کافائدہ آنیوالے وقت میں صوبے کو ہوگا کم عمر کھلاڑیوں کی انٹری ہے جو مختلف کھیلوں میں آئے ہیں اور انکی اگر صحیح طریقے سے گرومنگ کی گئی او ر حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری رہا تو آنیوالے وقتوں میں یہی کم عمر کھلاڑی نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں بھی پاکستان کا نام روشن کرینگے-اس لئے ان کھلاڑیوں کی تربیت سمیت انہیں انعامات دینے کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہئیے تاکہ یہ کھلاڑی کھیلتے رہیں اور کھیلوں کے میدان بھی آباد رہیں- تاہم دیگر صوبوں کی طرح زائد العمر کھلاڑیوں سے بھی جان چھڑانے کی ضرورت ہے جس پر کوچز ، ایسوسی ایشنز اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں