باچاخان بابا کے تعلیمات ہمارے نصابوں میں کیوں نہیں……؟ تحریر مشاہد باچا

قلم سے دوستی اور جنگ سے نفرت کرنے والا خان عبدالغفار خان عرف باچاخان بابا کا لوگوں میں تعلیم کا پرچار کرنا انکا صرف خواب نہیں تھا بلکہ یہ انکا سوچ اور نظریہ تھا
پاکستان کی وجود سے پہلے پشتونوں کو ایک لاوارثیوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا
آزادی ملت وطن کے بعد بھی پنجاب کے بنسبت پشتون معاشرے میں نہ تو کوئی سکول تھا نہ مدارسہ
سرسید احمد خان کے کارنامے اگرچہ پنجاب کیلئے بے مثال ھے تو پشتونوں کیلیے بھی باچاخان کا مثال کسی سے کم نہیں…
ایک عظیم پشتون لیڈر کے ہوتے ہوئے انہوں نے اپنی سارے زندگی فقیروں کیطرح گزاری
عبدالغفار خان عرف باچا خان نے عدمِ تشدد کے فلسفہ پر یقین میں صرف پشتونوں ہی کی خیر کی تمنا رکہی ہوئی تھی
پشتونوں کیساتھ مخلصی ان کی کہئ ہوئی کوٹیس یعنی انکے اقوال سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں باچا خان کے مطابق “جس قوم میں پیسہ اور اقتدار کی خواہش جنم لیتی ھے اس قوم میں اتفاق ختم ہوجاتی ہے”

باچاخان بابا کو سامراج کی جانب سے پہلے سے ہی پشتونوں پر ہونے والے کالے کرتوت اور کالے قوانین کاعلم تھا مگر انہوں نے عدمِ تشدد کو اپنا ہتھیار سمجھا اور سامراجی نظم کے ظلم اور انکے کالے کرتوت سے بچنے کیلئے انہوں نے پشتونوں کو تعلیم کی جانب رجحان پیدا کرنے میں ایک انمول اور تاریخی کردار ادا کیا
آجکل کے زمانے اور معاشرے نے باچاخان بابا کی تعلیمات اور انکے کہے ہوئے قربانی کیساتھ غداری ہماری نصابوں کی شکل میں ہوئی ہے ….
وہ پشتون معاشرہ جو ہماری نصابوں میں کوئی تاریخ نہیں رکھتی ان معاشرے کیلئے باچاخان بابا کی پہلی ترجیح معاشرے میں علم کی تبلیغ کا پرچار کرنا تھا وہ پشتون معاشرہ جو بعیر شعور کے ایک آندھا تصور کیا جاتا تھا ان میں علم اور شعور پھیلانے میں ایک خان عبدالغفار خان باچا خان نے لالٹین جیسی مثال تھی
وہ معاشرے سے ان غیرت کو ختم کرنا چاہتا تھا جن کی وجہ سے آج بھی بہت سارے پشتون ایک دوسرے کو دشمن تصور کرتے تھے
خوصلہ اتفاق استقلال اور صبر انکا ہتھیار تھا
ایک دفعہ انہوں نے فرمایا ” کہ جو قوم اپنے آپ میں تقسیم ہوجائے وہ قوم ہمیشہ دوسروں کیلے کمزور بن جاتے ہیں”

یہ بھی پڑھئے :  ملک قادر خان شہید کی یادیں ۔۔ تحریراحسان داوڑ

آزاد سوچ انکا نظریہ تھا
وہ آزاد ریاست کے مالک ایک گمنام سپاہی تھے
باچاخان بابا کی جیل کی زندگی میں ہمارے لئے ایک مثال ھے جنکی مثال ہمیںہ انکی خوصلہ، جرآت اور اپنی مٹی سے مخبت کرنے ملتی ھے
انکی مشہور قول” کہ جب انسان میں ایک دوسرے کی احساس کی سمجھ آنے لگے تو سمجھوں کہ انسانیت نے اپنا مقام حاصل کی”
انکی ہر حرف ہر لفظ ہمارے لئے مشعلہ راہ ھے مگر افسوس کہ انکی دیئ ہوئی تعلیمات سے ہمیں دور رکھا جاتا ہیں اور ہمارے اوپر رنجیت سنگھ کے پیروکار اور انکی تاریخ مسلط کیا جاتا ھے
دوسرے کے دکھ درد کو باچاخان نے اپنا دکھ سمجھا انہوں نے ہمیشہ پشتونوں کو انسانیت کا درس دیا ایک جگہ انہوں نے فرمایا ” کہ انسانیت کی خدمت تب جنم لیتی ھے جب آپ دوسرے کے تکلیف کو اپنا زحم سمجھ لئے”

یہ بھی پٹھئے:  بول کہ لب آزاد ہیں تیرے…. تحریر رفعت انجم

یقیناً خضور صلہ وعلیہ وسلم کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو اس دور کی تعلیمات اور باچاخان بابا کی تعلیمات کو اگر نصابوں میں شامل نہ کیا جائے تو یہ ناانصافی میں تصور کیا جاتا ہے
آپ اگر ہماری نصابوں میں باچا خان کو شامل کرے تو ہمیں کسی نیلسن منڈیلا کی تعلیمات کی ضرورت کھبی نہیں پڑ سکتی ہے
آپ اگر باچاخان بابا کو ہمارے نصابوں میں شامل کیا جائے تو ہمیں بچپن سے اپنی مٹی سے محبّت اور وفاداری کا ایک صراط مستقیم ملنے کو ملی گی
آپ اگر ہماری نصابوں میں اگر باچاخان بابا کو شامل کیا تو ان سے ان لوگوں میں بھی میں ایک شعور آئیگی جو اپنے مٹی کے غدار ھے
باچاخان بابا کی تعلیمات نہ صرف سکول کالج یونیورسٹی میں ضروری ھے بلکہ انکی تعلیمات تو مدرسوں میں اگر پڑھایا جاتے تو اج اپکو پشتون اور اسلام کے نام پر ہونے والی قاتل عم ملنے کو نہ ملتی……


کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضرعری نہیں۔

باچاخان بابا کے تعلیمات ہمارے نصابوں میں کیوں نہیں……؟ تحریر مشاہد باچا” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں