شمالی وزیرستان میں انصاف کے دعویدار حکومت اوران کےکارنامے ؟ تحریر: رسول داوڑ

خیبر پختون خوا کے خوش لباس ہنڈسم وزیر اعلی محمود خان تقریباً تمام تقاریروں میں قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقی کی بات کرتے نظر آتے ہیں چیف سیکرٹری کاظم نیاز عوام کو ریلیف کے لئیے ماتحت افسران کو ہدایات جاری کرتے ہیں یا آئی جی پی عوام کو انصاف کی فراہمی کے لئیے پولیس نظام میں بہتری کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں تو امیدسی پیدا ہوتی ہے کہ ان شاء اللہ حالات جلد سدھر جائینگے۔ترقیاتی کام شروع،پسے ہوئے طبقات کو ریلیف اور مجبور عوام کو خوشحالی نصیب ہوگی، انصاف کی حکومت میں انصاف کا بول بالا ہوگا وغیرہ وغیرہ مگر جب زمینی حقائق پر نظر پڑتی ہے تو حکومتی کاوشوں اور اربوں روپے پراجیکٹس کی تکمیل میں پیسہ کمانے اور ذاتی اعتراض و مقاصد کے لئیے رکاوٹیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شائید یہ حکومت مخالف سازش ہے جس میں حکومتی نمائندے شامل ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان کی خواہش کے برعکس قبائلی اضلاع حصوصا وزیرستان میں ترقی بحالی و آبادکاری کے کام شروع ہوتے ہی روک دی جاتی ہے جن کی وجوہات سے نہ صرف عوام باخبر ہے بلکہ یقین ہے کہ وزیر اعلی محمود خان ، چیف سیکرٹری کاظم نیاز ، ڈپٹی کمشنرز صاحبان، سیکورٹی فورسز حکام بھی بخوبی آگاہ ہونگے ۔
ترقی کا پیہہ روکنے کی بنیادی وجہ کروڑوں، اربوں روپوں کے وہ ٹھیکے اور ٹھیکیدار ہیں جو بدقسمتی سے اعلی حکام کی مدد سے انہیں ٹھیکہ یا کمیشن نہ ملنے پر ترقیاتی کام کو آگ لگا دیتے ہیں اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔
بدقسمتی سے کسی نے نوٹس نہیں لیا کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران شمالی وزیرستان میں محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کی چار ( 4 ) ایکسین صاحبان کے تبادلے کیوں ہوئے یا انہیں تبدیل کرنے کی وجوہات کیا ہے ؟ کسی نے یہ پوچھنے کی زخمت نہیں کی کہ وزیرستان میں ایکسین صاحبان خدمات سرانجام دینے سے انکار کیوں کرتے ہیں۔؟
کسی نے نوٹس نہیں لیا کہ ٹینڈر کے وقت ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے ٹھیکیداروں کیساتھ کیا ناانصافیاں ہوتی ہے ؟
تعجب ہے کہ چار ماہ کے دوران چار ایکسین صاحبان کو تبدیل کیا گیا جن میں وحید،ضیاء الاسلام ، ثمین اللہ کنڈی اور چند روز قبل تعینات ہونے والے ایکسین محمد زبیر شامل ہے۔
انصاف کا قتل تب ہوا جب انصاف بانٹنے کے لئیے حکومت نے تقریباً ایک ارب 60 کروڑ روپے کی خطیر لاگت سے جوڈیشل کمپلیس بلڈنگ تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ۔ محکمہ کے افسران کا کہنا ہے کہ صوبائی وزیر ریلیف و آبادکاری اپنی آبادکاری کے لئیے بضد آخری حد پار کرچکے ہیں ۔
جوڈیشل کمپلیس بلڈنگ کا ٹھیکہ کسی اور کو نہ ملنے کے لئیے ٹینڈر سے قبل افسران پر دھباؤ ڈالنے سے اللہ نہ کرے کہ یہ اھم پراجیکٹ بھی تاخیر کا شکار ہو ۔
میرانشاہ جوڈیشئل کمپلیکس کی تعمیر ، طریقہ کار اور میٹریل میں گڑ بڑ کی صورت میں نہ صرف حکومت عوام بلکہ معزز ججز صاحبان بھی ناراض ہوسکتے ہیں ۔
کنٹریکٹرز کا کہنا ہے کہ صوبائی وزیر ریلیف اقبال خان تمام ٹھیکوں کو اپنے بھائی کے نام کرتے ہوئے وزیر اعظم کے ویژن کی نفی کرتے ہیں۔
انصاف کی حکومت سے انصاف کی امید کیساتھ انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے گزارش ہے کہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے افسران اور ٹھیکیداروں کو دھمکیوں کا نوٹس لیا جائے ۔
تعمیر و مرمت میں دو نمبری یا غلط میٹریل کے استعمال پر وزیر اعلی اور عدلیہ نوٹس لیکر کاروائی کرے ۔
۔ کیا دھونس دھمکیوں اور بدمعاشی کے اس ماحول میں کوئی بھی سرکاری آفیسر یا ٹھیکیدار وزیرستان کی تعمیر و ترقی کا سوچ بھی سکیں گے ؟؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں