کیا ایسا نہیں ہے؟ رسول داوڑ

حکومت نے 30 اپریل تک لاک ڈاون برقرار رکھنے جبکہ محنت کشوں کو ریلیف پہنچانے کے لئے مختلف ورکشاپس کھولنے کا اعلان کیا ہے ۔
جن مختلف شعبہ جات سے منسلک افراد کو کاروبار کھولنے کی اجازت ہوگی ان میں پلمبر، حجام، الیکٹریشن، مکینک، زرعی مشنری، سیمنٹ پلانٹ، کھاد انڈسٹری، اینٹوں کے بھٹے، ڈرائی کلینر، بلڈنگ میٹیریل، سینٹری شاپ، ماربلز فیکٹریز، ٹائلز شاپ، ٹیلر،کریانہ، دودھ دھی کی دکانیں شامل ہیں جو صبح 6 سے رات9 بجے تک جبکہ وٹرنری اسپتال،ای کامرس،سافٹ ویئر ڈویلمنگ،فلاحی تنظیموں کے دفاتر،منرلز پلانٹ،بک شاپ ، فوٹوکاپی شاپ،کارپینٹرز،رنگ ساز،مستری،مزدور،میڈیکل سٹورز 24 گھنٹے کھلے رہینگے ۔الیکٹرک سٹور،شٹرنگ سٹور،بیکریز،بینک،ہاردویئر شاپ،لیبارٹریز،نجی ہاسپیٹلز،میڈیاانڈسٹری
وغیرہ صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کھلے رہیں گے۔ہر دکان پر ہینڈ سینٹائزر ، ماسک ضروری اور لازمی قرار دیاگیا ہے۔ادھر تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ھوئے احتیاطی تدابیر کیساتھ رب کو راضی کرنے کے لئے مساجد کھولنے، پانچ کی وقت نماز ادا کرنے، نمازجمعہ ،خطبات،رمضان میں تراویح پڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ علماء کے اس فیصلے پر بعض حلقوں میں تنقید کی جا رہی ہے کہ مساجد کھولنے کا اعلان کیوں کیا گیا یہ تو وائرس پھیلانے کا سبب بن سکتی ہیں ۔
کورونا کی موجودہ صورتحال میں جب بھی کوئی فوت ہوتا ہے تو سرکاری اعزاز کے ساتھ میت کو دفنانے اور نماز جنازہ پڑھائی جاتی ہیں، کیا یہ وائرس تب نہیں پھیلتا؟
حکومت نے حجام کی دکانیں بھی کھولنے کا اعلان کیا ہے۔کیا حجام کے ہاتھ سےشیو بنوانے سے کورونا وائرس لاحق ہونے کاخطرہ موجود نہیں ؟۔
کیا یہ وائرس فقط کسی عالم دین / مولوی کے پیچھےنماز پڑھنے سے ہی پھیل سکتاہے۔
موجودہ لاک ڈاون اور غیر سنجیدہ ادھورے اقدامات میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے اس وائرس کا خاتمہ مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔
جب تک ملک بھر کے پسے ہوئے طبقات کو ایڈوانس راشن پہنچا کر پندرہ بیس یا تیس دن تک مکمل کرفیو نافذ نہ کیا جائے، جزوی لاک ڈاون اور ایک حصے کو ٹارگٹ بنانے سے اس وائرس کا خاتمہ ممکن نہیں۔
بیرونی امداد کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ خدشہ موجود ہے کہ کرونا کیسز وقتا فوقتا پولیو وائرس کی طرح ملک کے کسی نہ کسی شہر میں پازیٹیو آتے رہیں گے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں