خصوصی تحریر: زاہد عثمان
کرک کو اگر پاکستان کے تعلیمی میدان میں زیادہ پڑھا لکھا ضلع تصور کیا جاتا ھے مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ھے جس سے بہت کم ھی لوگ واقف ھونگے کہ پاکستان کے یہ پڑھے لکھے تصور کئے جانے والے یہاں کے مکین ، آج بھی انتخابات کے دوران اپنے پڑھے لکھے بچوں کو کلاس فور اور گھر میں یا گھر کے قریب پانی فراہمی کے ہینڈ پمپ لگانے کی خاطر پانچ سال تک کسی بھی ایرے غیرے کو ووٹ دیتے ہیں، جسکا آزالہ پچاس سالوں میں بھی نہیں کیا جا سکتا، پاکستان کے اس سوکالڈ پڑھے لکھے ضلع کرک کو اللہ پاک نے معدنیات جیسے زیور سے نوازا ھے، ان معدنیات کی وجہ سے ھر سال ایک ارب ستاسٹھ کروڑ کی رائلٹی صرف گیس اور تیل کی مد میں ملتی ھے.. مگر جاتی کہاں ھے اس کا جواب شاید ھر کسی کے پاس موجود ھے لیکن پانچ سو روپے لینے اور گھر میں ہینڈ پمپ لگانے والے اس کا جواب ہرگز نہیں دے سکتے اور دینے کا کوئی حق بھی نہیں رکھتے.. یہی وجہ ھے کہ آج بھی بہت سارے لوگ پینے کے پانی سے محروم ہیں اور ان لوگوں کے کبھی کلاس فور نہ بھرتی ھونے والے بچے اکثر سڑکوں پر فاتحانہ انداز میں موٹر سائیکل پر مٹرگشتی کرتے ھو ئے نظر آتے ہیں….اور پورے ضلع میں کاروبار کرنے اور دو وقت کی روٹی کمانے کا کوئی زریعہ نہیں جسکے ذمہ دار صرف اور صرف اپنے بچوں کو کلاس فور بھرتی کروانے اور ہینڈ پمپ کی خاطر اپنے آپ کا سودا کرنے والے باپ ہیں، سیاست کرنے والے نہیں۔۔۔ جن کا کام ھی ان چند سوں ٹکے کی خاطر بکنے والوں کو جذباتی تقاریر سنا کر بے وقوف بنانا ھے اور آنے والے وقتوں میں ان کے لیے آئے ہوے پیسوں سے مزے کرنا… ذیادہ تعلیم حاصل کرنے سے کوئی تعلیم یافتہ ہرگز تصور نہیں ھوتا، مگر اونچے اور باہمی سوچ سے ھوتا ھے…اگر ھوتا تو کرک کے لوگ اس طرح خوار اور رسوا نہ ھوتے اور نہ ہی پرائی شادیوں میں گانے اور ہیجڑوں کے سات شوخیاں کرنے والے اتنے با اختیار ھوتے جو ان سو کالڈ پڑے لکھےلوگوں کا پیسہ اپنے عیش و آرام اور طوائفوں پر لوٹاتےھیں…جس معاشرےکے لوگ چائے کے ایک کپ کے لیے ماں بہن کی گالیاں برداشت کرتے ہیں اور ان کی سوچ اتنی گر جاتی ھے؟ اس معاشرے میں رہنے والے ان پڑھے لکھے کم اور جاہل زیادہ لوگوں کے پاس تباہی اور رسوائی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔