ورلڈ فزیکل تھیراپی ڈے۔۔۔ تحریر: سید حسنین شاہ

ہر سال ستمبر کی آٹھ تاریخ کو دنیا بھر میں ورلڈ فزیکل تھیراپی ڈے منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد ان عظیم لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ جنہوں نے قلیل مدت میں فزیکل تھیراپی کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ اس دن کو منانے کا ایک بنیادی مقصد فزیکل تھیراپی کے فوائد کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنا بھی ہے۔ کسی زلزلے یا حادثے کے بعد زخمیوں کو بھرپور زندگی کی طرف واپس لانا ہو یا سٹروک یعنی فالج کے مریض کی ریکوری ہو۔ کورونا کے بعد مریض کی سانس کی بحالی ہو، اگر یہ سب کچھ آج دنیا میں ممکن تو یقیناً فزیکل تھیراپی کی وجہ سے ممکن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے میدان میں کھلاڑی کی فٹنس کو برقرار رکھنا ہو یا بوڑھے افراد کو زیادہ سے زیادہ فٹ رکھنا ہو، فزیکل تھیراپی یہ تمام کام کرنے کے لیے حاضر ہے۔ گویا آسان الفاظ میں کہا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فزیکل تھیراپی انسان کو دوسروں کے سہارے کے بغیر زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہے۔ فزیکل تھیراپی انسان کی خودمختاری کی ضامن ہے۔ اور اس کی وجہ سے اگر انسان فٹ رہتا ہے تو لمبی عمر پاتا ہے۔ اور اس طرح فزیکل تھیراپی اوسط عمر بڑھانے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔

فزیکل تھیراپی کی بنیاد پہلی جنگ عظیم کے بعد 1918 میں پڑی۔ اس وقت اسے رکنسٹریشن ائیڈ کا نام دیا گیا۔ جنگ کے زخمیوں اور 1916 کے پولیو مریضوں کا کامیاب علاج کرنے کے بعد اس فیلڈ کو بہت سے ممالک نے برقرار رکھا اور اسے ترقی دی۔ پاکستان میں اس فیلڈ کا آغاز 1956 میں 2 سالہ پروگرام سے ہوا جو بعد میں 3 سالہ پروگرام اور بی ایس سی پروگرام کے بعد 5 سالہ ڈاکٹریٹ ڈگری میں تبدیل ہوگیا۔ جیسے ڈاکٹر آف فزیکل تھیراپی(ڈی پی ٹی) کہتے ہیں۔ ڈی پی ٹی ڈگری آنے کے بعد اس فیلڈ کی پاکستان میں بھی کافی ترقی کی اُمید کی جا رہی تھی۔ مگر ایسا ممکن نہ ہوا۔

ترقی نہ کرنے کی سب سے پہلی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نظام میں کورس کو جدید نہیں بنایا جاتا۔ فزیکل تھیراپی ایک نومولود فیلڈ ہے۔ اس لیے اس میں ترقی کی رفتار کافی تیز ہے۔ یہاں پر فزیکل تھیراپی کی جو پہلی کتاب پڑھائی جاتی ہے۔وہ 1979 میں لکھی گئی ہے۔ 1979 کے نصاب سے 2021 کے میڈیکل کے مسائل حل کرنا نا ممکن تو ہے ہی مگر ایک اچھا مذاق بھی ہے۔اس طرح پاکستان میں فزیکل تھیراپی کے کورس کے حوالے سے کوئی پاکستانی کتاب شائع نہیں ہوئی۔ جو پاکستانی طلباء کے لیے سمجھنے میں آسان ہو اور وہ کتاب ہمارے لوکل مسائل کو حل کرنے میں مدد دے۔ یعنی ایسی کتاب جس میں لکھی ہوئی ریسرچ پاکستان میں کی گئی ہو۔ مقامی ریسرچ نہ ہونے کی وجہ سے طلباء اپنے علاقے کے مسائل کے بارے میں نہیں پڑھ پاتے۔ جس کی وجہ سے بعد میں انہیں کلینکل پریکٹس کرتے وقت دُشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں تعلیمی نظام کی نگرانی کرنے والا ادارے ایچ ای سی نے فزیکل تھیراپی کو کبھی شفقت کی نظر سے نہیں دیکھا۔ کبھی ان کا کورس اپڈیٹ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اور تو اور
ایچ ای سی کی جانب سے فزیکل تھیراپی پڑھانے والے انسٹیٹیوٹ کے لیے کچھ ضابطے طے کیے ہیں۔لیکِن خود اُن پر عمل درآمد نہیں کرواتا۔ فزیکل تھیراپی پڑھانے کے لیے 200 بستر پر مشتمل اسپتال کا ہونا لازمی ہے۔ اس وقت پشاور میں فزیکل تھیراپی کے 10 سے زائد انسٹیٹیوٹ کام کر رہے ہیں۔ لیکِن پشاور میں 10 ایسے ہسپتال موجود ہی نہیں ہیں۔ ایم بی بی ایس یا بی ڈی ایس کا کالج کھولنے کے لیے بھی ایسی شرائط موجود ہیں۔ وہاں تو جس کے پاس اپنا اسپتال نہ ہو اسے پڑھانے نہیں دیا جاتا۔ لیکِن ڈی پی ٹی میں صرف ہسپتال کے ساتھ ایک کاغذی معاہدہ کر کے آپ انسٹیٹوٹ کھول سکتے ہیں۔ مذاق تو طلباء کے ساتھ یہ ہو رہا ہے کہ ایک ہسپتال چار پانچ انسٹیٹیوٹ سے پیسے لے کر کھا رہا ہے۔ اس کا انجام یہ نکلتا ہے کہ جب سرکاری یونیورسٹی کے طلباء جن کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں چار سے پانچ گروپوں میں تقسیم کر کے اس ہسپتالوں میں پریکٹس کے بھیجا جاتا ہے۔ تو ان ہسپتالوں میں نجی اداروں کے طلباء بھی موجود ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات طلباء زیادہ ہوتے ہیں اور مریض کم جس کی وجہ سے ہسپتال کے عملے کو بھی ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے۔ اور کئی بار تو طلباء کے ساتھ موجود اساتذہ کو عملہ اچھی خاصی سنا بھی دیتا ہے۔ اس لیے بغیر اپنا ہسپتال بنائے کسی کو بھی صرف ایک ہسپتال کے ساتھ معاہدے پر انسٹیٹیوٹ کھولنے کی اجازت بلکل نہیں ہونی چائیے۔ ان انسٹیٹیوٹ کے سیٹھ غریب طلباء سے سرکاری یونیورسٹی کے مقابلے میں دوگنی فیس وصول کرتے ہیں۔ نہ اپنا ہسپتال بناتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ کو انکی قدر کے مطابق تنخوا دیتے ہیں۔ اس کے بعد ایک انہونی ایچ ای سی یہ کر رہا ہے کہ اس نے انجینرنگ کی یونیورسٹیوں کو میڈیکل ڈگری ڈی پی ٹی پڑھانے کی اجازت دے دی۔ اب اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ کل کو کوئی فزیکل تھیراپسٹ لوگوں سے یہ کہے کہ اس نے انجینرنگ یونیورسٹی سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ نجی انجینئرنگ یونیورسٹیوں کو اگر میڈیکل پڑھانے کی اجازت ہے تو پھر میڈیکل یونیورسٹیوں کو بھی سوشل سائنسز، نیچرل سائنسز اور فنون لطیفہ کی ڈگریوں کو پڑھانے کی اجازت دی جائے۔ تا کہ یہ یونیورسٹیاں بھی پیسیں كما سکیں۔

فزیکل تھیراپی کو درپیش مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ میڈیکل کی یونیورسٹیوں کے جیتنے بھی بورڈ آف گورنرز ہیں ان میں ڈی پی ٹی کا عہدے دار شامل نہیں ہوتا۔ حالیہ دنوں میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور نے ایک سرکولر جاری کیا جس میں لکھا تھا کہ فزیکل تھیراپسٹ اپنے آپ کو ڈاکٹر نہیں کہہ سکتے۔ یعنی جن کی ڈگری میں لکھا ہے ڈاکٹریٹ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ ڈاکٹر نہیں ہیں تو پتہ نہیں کیا ہیں۔ اب یہ تو یونیورسٹی بتا سکتی ہے۔ اصل بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فزیکل تھیراپی میں ایک بنیادی ریفارم کی ضرورت ہے۔ ریفارم ایسے کے فزیکل تھیراپسٹ کو بورڈ کا ممبر بنایا جائے۔ تا کہ جب فزیکل تھیراپی کے فیصلے ہو تُو فزیکل تھیراپی کا نمائندہ موجود ہو۔

فزیکل تھیراپی کو ترقی دینے کے لیے اس وقت سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ فزیکل تھیراپسٹ ڈگری مکمل کرنے کے بعد صرف فزیکل تھیراپی کی پریکٹس نہ کریں۔ کچھ لوگ بیوروکریسی میں شامل ہو۔ کچھ لوگ میڈیا کا رخ کریں اور کچھ لوگ سیاست میں قدم رکھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت اسمبلی الائیڈ ہیلتھ سائنسز کا بل پاس ہورہاہے۔ اگر کوئی فزیکل تھیراپسٹ اس وقت اسمبلی میں موجود ہوتا تو اس بل کو وہ کبھی پاس نہ ہونے دیتا۔ خواتین فزیکل تھیراپسٹ اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ کیوں کہ اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر ہر پارٹی کو ٹیکنوکریٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ میڈیا میں نمائندگی اس لیے ضروری ہے کہ جب خیبر پختونخوا کے طلباء نے 5 دِن رات دھرنا دیا تو اُن کو اس قسم کی کوریج نہ مل سکتی جس کے وہ حقدار تھے۔ بیوروکریسی میں فزیکل تھیراپسٹ کا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ فزیکل تھیراپسٹ کی فائل جب کسی ڈیپارٹمنٹ میں جاتی ہے تو سالوں تک وہ فائل بند پڑی رہتی ہے اور اس کے متعلق کسی قسم کی معلومات تک نہیں دی جاتی۔ کسی بھی فیلڈ کو ترقی دینے کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے کہ اس فیلڈ کے لوگ زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہوں پھر چاہے وہ میڈیا ہو، بیوروکریسی ہو، سیاست ہو، علم و فضل ہو یا پھر فنون لطیفہ ہو۔ وقت اب آگیا ہے کہ اس فیلڈ کے لوگ ان چیزوں پر سنجیدگی سے غور کریں۔

طلباء کسی بھی فیلڈ کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ فزیکل تھیراپی میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں طلباء پڑھتے ہیں لیکن ان سب کو جوڑنے کی کوئی تنظیم ہی نہیں ہے۔ تمام طلباء کے مسائل ایک جیسے ہیں لیکن ان طلباء کے مابین رابطے کا کوئی موثر ذریعہ موجود نہیں ہے۔ فزیکل تھیراپی کی ترقی کے لیے تمام طلباء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا انتہائی ضروری عمل ہے۔

فزیکل تھیراپی میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کے گولز بہت سارے ہیں۔ آزادانہ پریکٹس کرنی ہے، اپنا کونسل بنانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکِن کوئی قلیل مدتی اور طویل مدتی پلاننگ نہیں ہے۔ سب پہلے ہمیں چاہیے کہ ہم ہر سال پاکستان کی سطح پر فزیکل تھیراپی کانفرنس منعقد کریں۔ دس سالہ پروگرام بنائیں کہ دس سال میں ہم نے کیا کیا حاصل کرنا ہے۔ اس پروگرام پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک کمیشن قائم کریں۔ حکومت جس وقت تک فزیکل تھیراپی کا الگ سے کونسل نہیں بناتی۔ اس وقت تک فزیکل تھیراپی کی کوالٹی کو بہتر بنانے کے لیے غیر سرکاری شیڈو کونسل قائم کیا جائے۔ لیکِن یہ کونسل باھمی اتفاق سے قائم کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کھول دے۔ ہمیں چند فیصلے کرنے پڑھیں گے کہ آیا ہم نے خود اس فیلڈ کو وہ مقام دلانا ہے جو اس فیلڈ کا ہے یا پوری عمر اسی طرح گزر دینی ہے کہ حکومت ہمارا ساتھ نہیں دیتی۔ ابھی بھی وقت ہے، آج شروع کرینگے تو یقیناً دس پندرہ سالوں میں اس فیلڈ کی قسمت بدل جائے گی۔
بیس سال پہلے شمالی وزیرستان میں میرے دوست ناصر داوڑ کے خوبصورت گاؤں اسوری میں ہوائیں بدل رہی تھیں۔ جب ہم سرسبز و شاداب کھیتوں سے گزر رہے تھے ، اس نے جھانکا اور فاصلے پر اُترنے والے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا ، شاہی شوال ، جو افغانستان کو دیکھتا ہے۔ برف کے ڈھیروں نے اس کی چوٹی چڑھائی۔ انہوں نے کہا کہ موسم سرما آرہا ہے۔ قبائلیوں کو معلوم نہیں تھا کہ سردیوں میں کئی دہائیاں چلیں گی۔ یہ امریکہ کی اب تک کی طویل ترین جنگ کا آغاز تھا۔ جب گن شپ ہیلی کاپٹروں نے اپنے فضائی حملوں کو تیز کیا ، قبائلی بی بی سی کی پشتو خبریں سننے کے لیے ریڈیو کے گرد گھوم گئے۔ مقامی علماء نے اعلان کیا کہ امریکی مسلمان دنیا کی تباہی شروع کرنے کے لیے وہاں موجود ہیں۔ میں نے جنگ سے متاثرہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو قریبی گاؤں عیدک کے ایک بڑے مدرسے میں دیکھا۔ ان کے لشکر افغانستان کی سرحد سے شمالی وزیرستان میں داخل ہوئے ، پختہ پہاڑی علاقوں اور صوبہ پکتیا اور کرم کے علاقے سے شوال کے گھنے جنگلوں کے ذریعے۔ کے قافلے تھے۔ القاعدہ سے وابستہ مختلف قومیتوں ، زبانوں اور نسلوں کے مصری ، الجزائر ، سوڈانی ، مراکشی ، چیچن ، ایغور چینی ، اور امریکہ ، جرمنی اور فرانس سے مسلمان ہونے والے مسلمان ، جنہیں “گورا طالبان” کہا جاتا ہے۔ علاقے کے میرے اگلے چند دوروں کے دوران ، مقامی لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عربوں کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں اور ازبک کو کم سے کم۔ عربوں نے اپنے پاس رکھا اور مقامی خریداریوں پر سودے بازی نہیں کی۔ ان کے بقول ، ازبک مداخلت اور بے رحم تھے۔ واپس جب جنگ شروع ہوئی تو قبائلی علاقے کہانیوں اور سائے کی سرزمین بن گئے۔ خرافات بہت زیادہ ہیں۔ شوال کے لکڑی کاٹنے والوں کا خیال تھا کہ اسامہ بن لادن بھیس بدل کر ان کے درمیان چھپے ہوں گے۔ الجزیرہ نیوز چینل کی طرف سے نشر ہونے والی ویڈیو ٹیپ سے 29 اکتوبر 2004 کو لیا گیا ایک فریم گریب (ایل) القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو دکھاتا ہے۔ (فائل/اے ایف پی) ایک لکڑی کاٹنے والے نے مجھے بتایا ، “ہم نے اجنبیوں کو لکڑیاں کاٹتے ہوئے دیکھا اور تقریبا 25 25 سے 30 افراد کا ایک اور گروہ پانچ یا چھ ڈاکوؤں کو گھیرے ہوئے تھا۔” انہوں نے ہمیں 10 ہزار روپے دیئے اور کہا کہ واپس نہ آئیں۔ چند دنوں کے لئے.” اس سے پہلے کہ سی آئی اے سے چلنے والے شکاری ڈرون فضائی حملوں کے لیے مشہور ہو جاتے ، قبائلیوں کا خیال تھا کہ وہ جاسوس کیمرے ہیں ، انہیں “بش کی آنکھ” کہتے ہیں۔
رازداری کی ثقافتی اقدار اور گھر کے تقدس کی وجہ سے قبائلی عمائدین مشتعل تھے۔ ان دنوں میں نے عسکریت پسند کمانڈر نائیک محمد سے ملاقات کی ، جو بعد میں ڈرون حملے کا پہلا نشانہ بنے۔ “یہ چیز ہر جگہ میری پیروی کرتی ہے ،” اس نے آسمان میں ستارے جیسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ واپس افغانستان میں ، امریکہ نے طالبان سے وہ زمین کھو دی جو انہوں نے شروع میں فضائی حملوں سے حاصل کی تھی۔ طالبان پیچھے ہٹ گئے ، پہاڑوں میں چھپ گئے ، دیہی آبادی میں گھل مل گئے اور عسکریت پسندی سے پہلے کی زندگی میں واپس چلے گئے۔ لیکن انہوں نے امریکہ کی متضاد پالیسیوں سے فائدہ اٹھایا۔ افغانستان میں جنگ شروع کرنے کے دو سالوں کے اندر ، امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ایک اور جنگ کا اعلان کیا تھا جس کا بہانہ یہ تھا کہ وہ بڑے پیمانے پر نام نہاد ہتھیار رکھتے تھے۔ تباہی کافی وسائل افغانستان سے عراق منتقل کیے گئے ، بشمول تجربہ کار سفارت کاروں اور فوجی کمانڈروں نے ، طالبان کو بہت زیادہ مہلت دی۔ دوبارہ گروپ بندی کرتے ہوئے ، وہ گھات لگانے ، خودکش حملوں اور بم دھماکوں کی طرف متوجہ ہوئے ، جب انہوں نے دیہی جنوبی اور مشرقی افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تو افغان فوجیوں اور تعمیراتی کارکنوں کو ہلاک کر دیا۔ ایک بھرپور شورش کا سامنا کرتے ہوئے ، بش کے جانشین باراک اوباما نے مزید فوجیں تعینات کیں اور افغان حکومت سے جنگ کی باگ ڈور سنبھال لی۔ 2007 سے 2013 تک افغان جنگ کے کوآرڈینیٹر ریٹائرڈ امریکی لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس لوٹے کے الفاظ میں یہ “افغانستان میں لڑائی کی امریکی کاری” تھی۔ ہم افغانستان کی بنیادی تفہیم سے عاری تھے۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہم کیا کر رہے ہیں ، “ان کا حوالہ دو ہزار صفحات کے نوٹوں اور انٹرویو میں دیا گیا جو کہ امریکی حکومت کے” سبق سیکھنے والے منصوبے “کا حصہ تھے۔ امریکہ نے حکمت عملی اور اسٹریٹجک غلطیاں کیں۔ اس نے امریکی نجی کے ساتھ بین الاقوامی جنگی معیشت بنائی۔ ٹھیکیدار ، پہلے سے کرپٹ اور غیر فعال افغان حکومتوں میں لالچ ڈال رہے ہیں۔ 40 سے زائد ممالک نے افغانستان کی جنگ اور نام نہاد تعمیر نو میں حصہ لیا۔ دوسرے ممالک بھی اس سیاق و سباق سے بے خبر تھے جس میں وہ کام کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر برطانیہ نے طالبان کے گڑھ صوبہ ہلمند کی ذمہ داری لی۔ لیکن ہلمند والوں کو ان تین جنگوں پر فخر ہے جو انہوں نے ماضی میں انگریزوں کے ساتھ لڑی تھیں اور ان کی طرف ان کی تاریخ کا ایک اعلیٰ مقام ہے۔ 1880 میں میوند کی جنگ میں برطانوی افواج کی شکست ، لوک داستانوں اور گیتوں میں فتح یاب ہونے والی فتح ، زیادہ تر صوبے کی ملیشیاؤں سے منسوب ہے۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ، کابل پردیس افغانوں سے بھر گیا جو امریکہ اور یورپ سے غیر ملکیوں ، بین الاقوامی تنظیموں اور فنڈڈ سرکاری پروگراموں کے ساتھ کام کرنے کے لیے واپس آئے تھے۔ “بریف کیس لاٹ۔ وہ موسمی ہیں ، وہ مشکل وقت میں اپنے بریف کیسز ڈالروں سے بھرے ہوئے چلے جائیں گے ،
”ایک مقامی نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیا۔ میں نے دیکھا جنگجو سردار مسلح ملیشیا کے قافلوں اور ڈالروں سے بھرے بیگوں کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ انہیں طالبان کے خلاف امریکی افواج کی جاسوسی کے لیے “رشوت” دی گئی۔ اس کے بدلے میں ، وہ اپنے حاکموں کو مضبوط بنا کر طاقتور بن گئے ، اور اکثر اپنے دشمنوں کو طالبان کے طور پر لیبل لگاتے تھے تاکہ ان کے خلاف امریکی افواج کے غضب کو ہدایت کریں۔ بدعنوانی اس قدر عروج پر تھی کہ بھوت فوجی – جو کہ صرف کاغذ پر موجود تھے – مبینہ طور پر پولیس سمیت افغان فورسز میں بھرتی ہوئے۔ میں نے کابل-قندھار سڑک پر سفر کیا ہے ، جو امریکیوں نے ملک کے بڑے شہروں کو جوڑنے کے لیے بنایا تھا ، جسے جنگ کی کامیابی کے لیے اہم قرار دیا گیا تھا۔ اس پر 200 ملین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود ، یہ اب مرمت سے باہر ہے – افغانستان کی تعمیر نو کے نامکمل ایجنڈے کے لیے موزوں استعارہ۔ 200 ملین ڈالر کی کابل-قندھار سڑک اب مرمت سے باہر ہے-ملک کی تعمیر نو کے نامکمل ایجنڈے کے لیے موزوں استعارہ اویس توحید امریکہ کی 2 ٹریلین ڈالر کی جنگ میں ، ہزاروں افغان اور پاکستانی مارے گئے۔ تقریبا $ 100۔ اربوں کی رقم ایک افغان فورس بنانے میں لگائی گئی جو کہ گزشتہ ماہ کچھ دنوں میں طالبان کی پیش قدمی کے ساتھ پگھل گئی۔ افغانستان کی تاریخ تضادات ، دھوکہ دہی اور سائیڈ سوئچنگ جنگجوؤں سے بھری پڑی ہے۔ طاہر ابراہیمی نے ملک چھوڑتے ہوئے کہا کہ جب میں اپنے افغانستان کو دیکھتا ہوں تو مجھے خون میں رنگین تصویر نظر آتی ہے۔ میں نے اس سے کئی سال قبل کابل میں ملاقات کی تھی جب وہ بچوں کی تعلیم کے ایک منصوبے پر کام کر رہا تھا۔ لیکن وہ مجھے بتاتا ہے کہ اس کا بھائی اور کزن ٹھہرے ہوئے ہیں۔ 9/11 کے بعد کی نسل ڈیجیٹل دنیا میں پیدا ہوئی ہے ، سائبر اسپیس میں سانس لیتی ہے ، اور مغرب کے سامنے ہے۔ دریں اثنا ، طالبان اپنی نظریاتی دنیا میں رہتے ہیں۔ کیا ان دونوں جہانوں کا اختلاط ممکن ہے؟ صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے 120،000 سے زائد امریکی فوجیوں کے انخلاء کو ایک غیر معمولی کامیابی قرار دیا ہے ، ملک میں افراتفری ، معاشی ڈراؤنا خواب ، طالبان کی حکومت کی واپسی اور داعش کے خطرے کو نظر انداز کرتے ہوئے افغانوں کو ایک پہاڑ پر چھوڑ دیا ہے۔ امید اور خوف کا کنارہ بائیڈن کے لیے ، 9/11 کے 20 سال بعد ، یہ اختتام ہے۔ امریکہ کی ہمیشہ کے لیے جنگ لیکن افغانستان کے لوگوں کے لیے یہ ایک اور طویل موسم سرما کے خوف کو جنم دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں