کوئی بھی نہی جانتا کہ فخرالدین سید نے کرونا وائرس میں مبتلاء ہونے کے بعد زندگی کے اخری چند ایام کس اذیت اور کس قدر ناقابل برداشت تکلیف میں گزارے ، کیونکہ حسب قائدہ اسے ہسپتال میں تنہائی میں رکھا گیا تھا ،پھر حالت بگڑنے پر اسے شعبہ انتہائی نگہداشت میں منتقل کیا گیا کچھ روز قبل اطلاع ملی کہ فخرالدین کو وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا ہے، اس اطلاع سے تشویش اور پریشانی میں اضافہ ہونا فطری عمل تھا، ہر طرف سے دعائیہ کلمات بلند ہونے لگے اور رب کے حضور زندگی کا سوال کیا جانے لگا اور پھر آج جمعرات 28 مئی کو یہ منحوس اور دلخراش خبر مل گئی کہ فخرالدین اب اس دنیا میں باقی نہی رہا، بتایا گیا ہے کہ علی الصبح اخری سانسیں اور ھچکیاں لینے کے بعد جسم و جان کا رشتہ ٹوٹ گیا ،زندگی میں ہر وقت متحرک رھنے والے مخرالدین کا جسم بے جان ھوچکا تھا اور پھر چند گھنٹوں بعد ہی دن کے گیارہ بجے وہ مسکراتا ھوا چہرہ ھمیشہ کے لیئے منوں مٹی کے نیچے سو گیا .
یہ بھی پڑھئیے: قصہ ملنگ فخرالدین کا! سید فخر کاکاخیل
،،ھاں ،،،،، اس لمحے ہر انکھ اشکبار تھی ہر دل سوگوار تھا، ہر چہرہ اترا ھوا تھا، کوئی تو اسکی صفات بیان کرتا تھا اور کوئی سکتے کی کیفیت میں تھا، انہی کیفیات میں اسکے دوست واحباب، رشتہ دار اور گھر کے افراد اسے ایسی جگہہ تنہا چھوڑ ائے جہاں ہر مرنے والے کو تنہا چھوڑا جاتا ھے،
،،،، ہاں ،،،،،، قبرستان میں ،،،،چھوڑ ائے،،،،،،،، منوں مٹی تلے،،،،،
وہی قبرستان جسے شہر خموشاں بھی کہا جاتا ھے،اور وہ زندگی میں ان گنت بار وہاں رپورٹنگ کے لیئے جاتا رھا، لوگ اسے مٹی کے نیچے چھپا تو ائے مگر اسکا مسکراتا چہرہ اسکی شوخیاں دل و دماغ میں نقش ھو گئیں جنہیں بھولنے کے لیئے کئی برس درکار ھیں ،
فخرالدین کرونا وائرس سے متاثر ھوکر اپنی قیمتی زندگی سے ھاتھ دھونے والا پشاور کا پہلا صحافی ھے، وہ 92 نیوز چینل سے وابستہ تھا، مجھے یہ تو معلوم نہی کہ اس نے اپنے صحافتی کیرئیر کا اغاز کب اور کس اخبار سے کیا تھا مگر یہ یاد ھے کہ جب اس نے روزنامہ پاکستان جوائن کیا تو اسے اس فیلڈ میں ائے زیادہ عرصہ نہی گزرا تھا ، وہ نیا نیا رپورٹر جانا جاتا تھا، وہ کرائمز رپورٹر تھا اور بحثیت نیوز ایڈیٹر میرے ساتھ اسکا قریبی پیشہ ورانہ تعلق تھا، شائد عمران بخاری اسکا قریبی ساتھی تھا جسکے ساتھ مل کر یہ رپورٹنگ کرتا تھا، وہ ہر وقت خبروں کی جستجو میں رھنے والا ایک متحرک رپورٹر تھا اور یوں اگے کی طرف سفر طے کرتے ھوئے 92 نیوز چینل کے ساتھ وابستہ ھوگیا اور اپنی شبانہ روز محنت سے اس ادارے اور صحافتی و عوامی حلقوں میں اپنا ایک خاص مقام پیدا کرنے میں کامیاب ھوگیا، وہ جس قدر تیزی کے ساتھ ابھرا اتنی ہی تیزی کے ساتھ اپنا سفر مکمل کرکے سب جاننے والوں کو سوگوار چھوڑ گیا،
فخرالدین کے دلخراش انتقال پر حسب توقع اور حسب روایت تعزیتی بیانات کا تانتا بندھ گیا ، میں کسی کا بھی نام نہی لینا چاھتا، مگر یہ ضرور کہوں گا کہ ان تعزیتی بیانات نے نہ تو مجھے متاثر کیا نہ ہی بیان دینے والے مجھے اپنی طرف مائل کرسکے ، کیونکہ میں یہ سمجھنے میں اپنے اپ کو حق بجانب سمجھتا ھوں کہ فخرالدین کرونا وائرس کے ھاتھوں نہی مرا ، بلکہ اس کا قتل ھوا ھے اور اس کے قتل میں ان لوگوں کی اکٹریت شامل ھے جو اج اس کے انتقال پر مگر مچھ کے انسو بہا رہے ھیں اور لمبے لمبے تعزیتی بیانات میں اسکی پیشہ ورانہ خدمات کی تعریف اور بچھڑنے پر دکھ کا اظھار کررہے ھیں ، اسے خراج عقیدت پیش کررہے ھیں
یہ بھی پڑھئے: فخر واقعی قابل فخر۔۔۔ خصوصی تحریر: ابراہیم خان
لیکن جب وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی بجا اوری کے دوران نظر نہ انے والی موت کے سامنے کھڑا ھو کر رپوٹنگ کررہا تھا، تب کسی کو بھی یہ خیال نہی ایا کہ اپنے اختیارات ،اپنے وسائل اور اثرورسوخ کو استعمال کرکے ھم اسکی زندگی کی حفاظت کو یقینی بنائیں ، زندگی کی حفاظتی تدابیر ہر صحافی کی طرح فخرالدین کا بھی حق بنتا تھا، (جو کہ بدقستی سے ابھی تک کسی کو نہی مل سکا) ایک اندازے کے مطابق میڈیا کے تمام فیلڈ ورکرز کی زندگیوں کو محفوظ بنانے پر چند لاکھ روپے خرچ ھوتے ھیں جو ھسپتال میں کسی ایک مریض پر اٹھنے والے نام نہاد اخراجات(25 لاکھ روپے) سے بہت کم ھیں ، مگر تمام زمہ دار شخصیات اور تمام زمہ دار صاحب اختیار اداروں نے مسلسل مجرمانہ چشم پوشی کی ، یہ لوگ میڈیا میں بڑے بڑے بیانات دینے اور بڑے بڑے دعوے کرنے سے زیادہ کچھ بھی نہ کر سکے اور نہ ہی کرتے دکھائی دے رہے ھیں اور اب اسے موت کے منہ میں دھکیلنے کے بعد مگر مچھ کے انسو ایسے بہا رہے ھیں جیسے اسکے موت کی ان پر سرے سے کوئی زمہہ داری عائد ہی نہی ھوتی،
پشاور سے تعلق رکھنے والے کوئی ڈیڑھ درجن صحافی کرونا وائرس سے متاثر ھوئے، شکر الحمدللہ کے باقی سارے صحتیاب ھوگئے ،میں انکی صحتیابی کو ایک معجزہ قرار دیتا ھوں ورنہ ان صحافیوں کے لیئے کس نے کیا کیا،؟ یہ انہی سے پوچھ لیجئے،
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ دی خیبرٹائمز
“فخرالدین سید کی موت کا ذمہ دار کون ؟ اظہر علی شاہ” ایک تبصرہ