کچھ دن پہلے افغانستان کو طالبان نے بندوق کی نوک پر اپنے کنٹرول میں کیا، وہ الگ بات کہ کیسے اور کس کی حمایت پر آئے، امریکہ 20 سال افغانستان میں رہ کر آخر کار راہ فرار اختیار کی، اور امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ کیسے لڑتے جب افغان فورسس نے نہیں لڑنا تھا، خیر یہ ایک الگ موضوع ہے،
لیکن اج اس بات کو ہر ایک تسلیم کرتا ہے کہ اگر افغانستان کا پاکستان، روس، امریکہ یا دوسرے ممالک جیسا دفاعی نظام مضبوط ہوتا، مضبوط فوج اور انٹیلیجنس ادارے ہوتے، اگرچہ 3 لاکھ تک افغان فورسز ہیں۔ یہ خود امریکی دعویٰ ہے، لیکن ایمرجنسی حالات کو کنٹرول میں رکھنے کی صلاحیت ہوتی، انکا سنٹرل کمانڈ ہوتا، وہ تمام تر وسائل ہوتے جو ایک دفاعی ملک کے ساتھ ناگزیر ہے، تو اج مٹھی بھر مسلح گروہ کیسے پورے افغانستان کو بغیر مزاحمت کے اپنی گرفت میں لاتے، کیسے منتخب صدر اشرف غنی اپنے ملک سے فرار ہوتے، اگرچہ انہوں نے موجودہ حالات کے مطابق ملک میں خونریزی کو روکنے کیلئے یہ اقدام اٹھایا۔ کم از کم وہ یہی کہہ رہے ہیں، لیکن اگر ان کے پاس مضبوط فوج اور ادارے ہوتے، تو ایسے دن کھبی نہ دیکھتے۔
افغان فورسز جو مختلف علاقوں میں سیکیورٹی پر مامور تھے، انہیں لاجسٹیک سپورٹ ہوائی مل رہی تھی، اور وہ ہوائی لاجسٹیک سپورٹ امریکن فورسز نے واپس لے لیا تھا، مختصر یہ کہ ایسے حالات میں مضبوط دفاعی نظام واحد راستہ تھا جو افغانستان کے پاس نفی میں تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ روس کے خلاف جہاد میں بھی روس کو جب تک ہوائی برتری حاصل تھی مجاہدین چھپ کر پھر رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی امریکہ نے ان کو جہاز گرانے کے لیئے سٹنگرز دیئے یوں سمجھئیے مجاہدین کی فتح یقینی ہو گئی۔
پاکستان، روس، امریکہ، چین یا دوسرے ممالک جو ایک مضبوط دفاعی نظام رکھنے والے ہیں مضبوط فوج اور انٹیلیجنس ادارے ہیں، تبھی تو کوئی ان کے خلاف ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، کہ مٹھی بھر لوگ اکر ملک کی سالمیت کو چیلنج کریں یا نظام کا تختہ الٹ دیں،
ہم اکثر اوقات فوج پر تنقید کرتے ہیں، اصلاح کیلئے مثبت تنقید جمہوریت کی زینت ہوتی ہے، لیکن تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہیئے، اللہ نہ کرے کہ ہمیں ایسے حالات کا سامنا ہو جس کا سامنا عشروں سے افغانستان سامنا کر رہا ہے، لیکن ایمرجنسی اور ایسے نازک صورتحال کو کنٹرول میں لانے کیلئے افواج پاکستان پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ کم از کم دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خصوصاََ سوات آپریشن میں ہن دیکھ چکے ہیں۔
اب افغانستان کو اپنی گرفت میں لینے والوں کو بھی سوچنا ہوگا، عوامی رائے کے مطابق منتخب حکومت تشکیل دینی ہوگی، بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھنا ہوگا، ادارے بحال کرنے ہونگے، سیاسی لیڈرز کو واپس بلا کر بات چیت کے زریعے مسئلہ کا حل ڈھونڈ کر منتخب حکومت تشکیل دینی ہوگی، معیشت کی مضبوطی کیلئے دنیا کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا، انٹرنیشنل کمیونٹی کو بھی افغان مسلہ کے حل میں کردار ادا کرنا ہوگا، افغان قومی جھنڈے پر جو کشمکش شروع کی ہے، اسے ترک کرنا ہوگا، ان کے جھنڈے کی طرح اس جھنڈے پر کلمہ طیبہ تحریر ہے، انکا احترام کریں اور برقرار رکھیں، کیونکہ عوام کے احساسات مجروح ہورہے ہے، نہیں تو زور زبردستی سے کوئی بھی حکومت تو حاصل کرے گا لیکن دیرپا چلانا ناممکن ہوگا، اور یہی چند غلطیاں انہیں بہت مہنگا پڑ سکتے ہے