تحریر،ہارون رشید
hrjournalist1@gmail.com
لاک ڈاﺅن کالفظ میرے لئے شٹرڈاﺅن ہڑتال جیساہی تھا دوچاردن دکانیں بندرہنے کے بعد شٹرکھل جائیں گے مزدور کی دیہاڑی پھر سے شروع ہوجائے گی اورمعمولات زندگی بحالی کی طرف گامزن ہوگی لیکن تین دن کالاک ڈاﺅن اتناطویل ہوجائے گا اس کااندازہ شاید کسی کونہیں تھا لاک ڈاﺅن نے جہاں ملکی معیشت کاپہیہ جام کردیاہے وہیں مزدور سے لیکر سرمایہ کار اور کارخانہ دار طبقہ بھی اس سے شدیدمتاثرہوا ہے لیکن معاشرے کا ایک بے ضررطبقہ سفید پوش لوگوں کابھی ہے جن کے گھر فاقے چل رہے ہوتوبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور اپنی خواہشات کم کرکے اورپیٹ پرپتھرباندھ کر گزارہ کرنے کوترجیح دیتے ہیں اوراگر حالات موت سے بدترہوجائیں تو گھرکاسامان بیچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،لاک ڈاﺅن کالفظ لیتے ہی ذہن میں گمان ہونے لگتاہے کہ یہ لاک ڈاﺅن نہیں بلکہ معلومات زندگی پر کسی نے تالا لگا دیا ہو ہر بندہ اس پریشانی میں مبتلا ہے کہ اگلا دن کیسے گزرے گا۔ لاک ڈاﺅن میں ایسے سفیدپوش لوگوں سے بھی واسطہ پڑا جن کی آنکھوں میں حسرت ویاس کابہتاسمندر تھالیکن بچوں کاپیٹ بھرنے کےلئے زبان سے مانگنے کے گرُسے ناآشناتھے،
یہ بھی پحئے: خواجہ سرا کورونا لاک ڈاؤن کے باعث ایک نئےاور مشکل امتحان سے دوچار تحریر: ہارون الرشید
رزق دینے والی اللہ پاک کی ذات ہے لیکن وصیلہ ہم انسان ہی بنتے ہیں ،علاقہ ہشتنگری کے ایک درجن سے زائد سفیدپوش گھرانوں کی لسٹ ہاتھ لگی جنہیں گھرکاچولہاجلانے کےلئے راشن کی سخت ضرورت تھی بھلاہواس انسان کا جس نے یہ لسٹ مجھ تک پہنچائی زندگی میں پہلی مرتبہ یہ نیک کام شاید اللہ تعالیٰ نے مجھ سے لیناتھا اس لئے فوراًموبائل اٹھایا اور جتنے بھی یاردوست تھے انہیں ان غریب خاندانوں کےلئے راشن کابندوبست کرنے کاکہا نہایت ملنسار اورنیک دل پشاورکے مقامی صحافی نے رابطہ کرکے راشن پوائنٹ پر آنے کاکہا اگلے ہی روز سفیدپوش خاندان کے تین سربراہ صحافی دوست کے بتائے پتہ پر بھجوادئیے لیکن مجھ سمیت ضرورت مند افرادکویہ علم نہیں تھاکہ راشن پوائنٹ پرراشن کی جگہ تین ہزارروپے کی نقدی تقسیم ہورہی تھی اورنقدی دیتے وقت (سیلفی)تصویر کی شرط عائد تھی یہ منظر دیکھ کر جیسے سفید پوشوں کے پاﺅں تلے جیسے زمین نکل گئی راشن لینے جانےوالوں میں دوخواتین نے برقعہ اوڑھ کر نقدی وصول تو کرلی لیکن ندامت سے انکے جھکے سر نے معاشرے کے ماتھے پر کئی سوال چھوڑ دئیے، خوداری کےساتھ تمام عمر بسرکرنے والے ہشنگری کے رہائشی عرفان نے سلفی کےساتھ نقدی لینے سے انکار کردیا جس کو اس بات کا پوری طرح اندازہ تھاکہ اگر وہ پیسے وصول نہیں کرے گا تو اسکے بچے بھوکے رہ جائینگے عزت وخودگیری پرسمجھوتہ نہ کرنےوالے اس انسان نے بھوک سے مرجانے کوترجیح تودی لیکن اپنے وقارکوپامال ہونے نہیں دیا بدقسمتی سے بعض صاحب ثروت افراد یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ بھرے پیٹ رکھنے والوں کواحترام کے ساتھ عالیشان محلوں اور ریسٹورنٹس میںروٹی کھلائیں توثواب ہے لیکن خالی پیٹ رکھنے والے غریب ومتوسط طبقہ کی سرے عام بے عزتی کےساتھ امداد کویہ لوگ ثواب کے کس کھاتے میں ڈالتے ہیں۔یہ تو اچھا ہے کہ رزق دینے والی اللہ تعالیٰ کی زات ہے وگرنہ یہ اختیاربھی انسان کے ہاتھ میں ہوتا تونہ جانے کتنے لوگوں کی بھوک وافلاس سے موت کی وجہ یہی صاحب ثروت افرادہوتے جنہیں دوسروں کی مجبوری،خوداری اورعزت ووقار کااندازہ نہیں ،تحریرکاخاتمہ اس دعاسے کرونگاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کی عزت وآبروکی سلامتی کاضامن بنائے،آمین
یہ بھی پڑھئے: بول کہ لب آزاد ہیں تیرے تحریر ۔۔ رفعت انجم
ادارے کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
“لاک ڈاﺅن یا زہر قاتل ؟ تحریر، ہارون رشید” ایک تبصرہ