ہمیں یہ ماننا پڑیگا، کہ ہم انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ اذیت پسندی کا بھی شکارہوگئے ہیں. خود کو اذیت دینا بھی اب ہمارے روئے میں شامل ہوگیا ہے. جبکہ دوسروں کی بے توقیری اور بے عزتی کرنےمیں ہمیں سکون ملتاہے. ہم مختلف شعبوں کے نامور شخصیات کو بوجوہ ایسے القابات بلکہ نازیبا الفاظ سے نوازنا اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں، اور ایساکرتے وقت ہم ان شخصیات کی محنت، جدوجہد، اعزازات اور اور عزت نفس کا خیال بھی نہیں رکھتے۔ بہت سے لوگ اپنے شعبے میں کچھ بھی نہیں کرپارہے تاہم وہ اس فارمولے پرعمل پیرا رہتے ہیں، کہ جنہوں نے اپنے کام سے نام کمایا ان کے کام اور نام دونوں کو متنازعہ بناکر داغداربنایاجائے، اور اسکی آڑ میں اپنی اخلاقیات کا جنازہ بھی نکال دیں، سوشل میڈیا کے نام و نہاد زرائع کے زریعے، اظہار رائے کے نام پر اظہار اور رائے کا جو حشر کرتے آرہے ہیں، اس نے ہمیں ہماری تربیت، روئیوں اور نظریات کو مایوس کن حدتک بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے، اس ڈرٹی گیم میں ہم نہ تو حکمرانوں کو انسان سمجھتے ہیں، نہ علما کو، نہ سیاستدانوں کو اور نہ ہی میڈیا کی ان اہم افراد کو جنہوں نے نہ صرف یہ کہ اظہاررائے کیلئے قربانیاں دیں، بلکہ لوگوں کو درست معلومات کی فراہمی، انسانی حقوق کی تحفظ اورریاستی اداروں کی ناقدانہ انچائی کی جدوجہد کی بڑی قیمت بھی چکائی، حال ہی میں جب ملک کے سب سے معتبر باجرآت اور سب سے ذیادہ ایوارڈ لینے والے صحافی کالم نگار اینکر پرسن اور مصنف حامدمیرصاحب نے ایک بیان کی بنیادپر تبلیغی جماعت کے اہم مبلغ مولانا طارق جمیل کی توجہ ایک ٹالک شو کے دوران ان کے لوبینگ ریمارکس کی جانب دلائی، تو اس میں ایسی کوئی بھی بات ایسی نہیں تھی، جس سے یہ تاثر لیاجاتا، کہ انہوں نے فریق دوئم کی تذلیل کی ہے، یا ان کو معافی مانگنے پر مجبور کیاہے، مگر اذیت پسند حلقوں نے اس معاملے کو جناب حامدمیر کا بڑا جرم قراردیتے ہوئے آسمان سرپر اٹھالیا اور اورکزئی روز تک طوفان بدتمیزی کا وہ میلہ لگائے رکھاکہ خدا کی پناہ سے حامدمیر بعض لوگوں کی نظروں میں حب الوطنی اور غداری کے دوطرفہ الزامات اور بحث کے بنیادی کردار توتھےہی، اب کے بار ان کو ان دو اعزازات کے علاوہ اسلام کا گستاخ اور باغی قراردینے کی ناکام اور گھٹیا کوشش بھی کی گئی، سینکڑوں جاننثاروں نے دن رات ایک کرکے اپنی تربیت اور اخلاقیات کے وہ مظاہرے دیکھائے کہ دوسروں کے علاوہ شائد مولانا طارق جمیل صاحب کوبھی ان نادان مداحین اور پیروکاروں کے کئے پر شرم محسوس ہونے لگی، اور انہوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کرکے جناب حامد میر صاحب کو خود فون کرکے اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کیا، یوں حامد میر کے خلاف جاری مہم میں کمی واقع ہوگئی۔ اب آتے ہیں میڈیا کے کردار اور حامد میر کے کیرئیر کی جانب، گزارش یہ ہے کہ جدید دور کا میڈیا کوئی مشن یا اصلاح عامہ کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، بلکہ یہ کمرشل بنیادوں پر لوگوں تک معلومات فراہم کرنے اور ان معلومات کی بنیادپر تجزیہ اور سوالات اٹھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے. پاکستانی میڈیا بہت سے نقائص کے باوجود بہت سے ممالک کے میڈیا سے بہتر ہے. جن ممالک میں گزشتہ چند برسوں کے دوران سب سے ذیادہ صحافی قتل کئے گئےہیں، ان میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے. جناب حامدمیر بھی ان چند معتبر صحافیوں میں شامل ہیں. جن کو متعدد بار سیاسی دباؤ پر میڈیا اداروں سے نکالا گیا. تو ان کو کراچی کے جان لیوا حملے سمیت کئی دیگرحملوں کانشانہ بنایاگیا، کئی بار انہوں نے اصولوں اور صحافیوں کے حقوق کی جدوجہد میں ملازمتوں کو خیرباد کہا، تو یہ بات بھی سب جینوئین صحافیوں کو معلوم ہے. کہ انہوں نے عامل اور عام صحافیوں کی نہ صرف مسلسل رہنمائی اور مدد کی، بلکہ ان کے حقوق کیلئے ہرموقع پر سب سے آگے نظرآئے.
جس سوشل میڈیا پر ان کو سب سے ذیادہ “القابات ” سے نوازاگیا اس پر حامدمیر پاکستان کے سب سے مقبول ترین شخصیات میں شامل ہیں. حامدمیر صاحب کا نہ صرف تمام سنجیدہ حلقوں میں احترام کیاجاتا ہے، بلکہ بہت سے نامور اور معتبر صحافی ان کو اپنا استاد اور آئیڈیل بھی سمجھتے ہیں. پاکستان میں ان کو سب سے ذیادہ اے پی این ایس ایوارڈز سمیت کئی قومی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں. جبکہ سب سے زیادہ عالمی اعزازات بھی ان کے پاس ہیں. ان کے طرز صحافت اور نظریات یا طریقہ کار سے اختلاف کیا جاسکتاہے، مگر اس پر ان کے مخالفین بھی متفق ہیں کہ وہ اس خطے کے سب سے بڑے مقبول اور معتبر صحافی ہیں. اسلئے سوشل میڈیا کے شاھینوں سے گزارش ہے، کہ ایسے افراد کی قدر اور عزت کرنا سیکھ کر دوسروں کے علا وہ اپنی تربیت پربھی پردہ رہنے دیں۔
Load/Hide Comments