ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈرعمرخالد خراسانی کی نماز جنازہ افغانستان کے صوبہ کنڑ میں آدا کر دی گئی

افغانستان سے موصول ہونے والے ذرائع بتایا ہے، کہ افغانستان کے صوبہ کنڑ کے علاقے گرگوری میں بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والے طالبان رہنما عمر خالد خراسانی کی نماز جنازہ رات 10 بجے آدا کی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمر خالد خراسانی کے ساتھ ہلاک ہونے والے ان کئے داماد قاری زکریا کو بھی ان کے ساتھ دفن کردیا گیا، جبکہ دو دیگر ہلاک ہونے والے مفتی حس اور حافظ دولت کو پکتیکا ہی میں سپردخاک کردیا گیا، جہاں ان پر دھماکی کیا گیا تھا،
امریکا نے ان کے سر پر تیس لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان کیا تھا، جبکہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے اس کی گرفتاری پر ایک کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کیا تھا، عمر خالد خراسانی پاکستانی فوجیوں کے درجنوں حملوں میں ملوث تھا۔
ٹی ٹی پی کے سابق رہنما حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد عمر خالد خراسانی کے فضل اللہ سے اختلافات پید اہوگئے تھےجس کے بعد انہوں نے ٹی ٹی پی سے راہیں جدا کرکے اپنا الگ گروپ جماعت الاحرار بنا لیا تھا، تاہم ایک سال بعد ٹی ٹی پی کے مرکزی امیر مفتی نورولی نے انہیں دوبارہ منالیا اور جماعت الحرار کو ٹی ٹی پی میں ضم کردیا،
عمر خالد خراسانی کا نام عبدالولی مہمند تھا اور ان کا تعلق قبائلی ضلع مہمند کی تحصیل صافی سے تھا، بیت اللہ محسود ہی کے زمانے میں وہ ٹی ٹی پی مہمند شاخ کے امیر بنائے گئے تھے،
مہمند سے زرائع کے مطابق خراسانی ایک زمانے میں صحافت کے شعبے سے بھی وابسطہ رہے تھے، جبکہ وہ پشتو کے ایک اچھے شاعر بھی تھے،
عمر خالد خراسانی نے کراچی کے مختلف مدارس سے دینی علوم کا طالب رہا، تاہ اس نے علم مکمل ہونے سے قبل ہی وہ جہادی تنظیموں کا حصہ رہے اور تعلیم ادھورا چھوڑ دیا،
لال مسجد کے واقع کے بعد عمر خالد خراسانی نے 2007 میں ضلع مہمند میں واقع حاجی صاحب ترنگزئی بابا کے مزار پر قبضہ کرکے ان کے مسجد کو لال مسجد کا نام دیکرمسلح جنگجوں کا مرکز قائم کرلیا، اور اسلام اباد لال مسجد میں بچوں کی شہادت کے کا بدلہ لینے کیلئے بقائدہ انہوں نے اپریشن غازی کا اعلان کردیا، جس کے خلاف بعد میں پاک افواج نےاپریشن کرکے ان کو ساتھیوں سمیت علاقے سے بھگا دیا گیا،
خالد خراسانی کا شمار ٹی ٹی پی کے بانی ارکان میں ہوتا تھا، تاہم اس نے کچھ عرصے کے لیے داعش میں شمولیت اختیار کی لیکن بعد میں 2015 میں دوبارہ ٹی ٹی پی کا حصہ بن گیا۔ گزشتہ دنوں ان کی ہلاکت کی خبریں منظرعام پر آئیں اور 2017 میں جماعت الاحرار کے اس وقت کے ترجمان نے اے ایف پی اور رائٹرز کو امریکی حملے میں مارے جانے کی تصدیق کی تھی تاہم بعد میں خالد خراسانی دوبارہ منظر عام پر آئے۔
خالد خراسانی کو آخری بار گزشتہ ہفتے دیکھا گیا تھا جب قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ہلال الرحمان کے ساتھ ان کی ایک تصویر سامنے آئی تھی۔
یہ تصویر اس پاکستانی جرگے کی تھی جو کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے کابل گیا تھا۔
تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ مقامی ہوٹل میں سینیٹر ہلال سے اچھے موڈ میں بات کر رہے ہیں۔ امریکی تحقیقاتی ادارے ریوارڈ آف جسٹس کے مطابق خالد خراسانی کی تنظیم پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کافی سرگرم ہے اور پنجاب میں اس کے باقاعدہ ایک نیٹ ورک موجود ہے جو پاکستان کے اندر شدت پسندی کی مختلف سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
خالد خراسانی نے کنڑ اور ننگرہار کی تمام کارروائیاں نہیں کیں اور وہ 2015 میں اس وقت کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کے قتل میں بھی ملوث تھا۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی سنٹر فار انٹرنیشنل سکیورٹی اینڈ کوآپریشن کے مطابق، جماعت الاحرار کی بنیاد 2014 میں رکھی گئی تھی، اور ان کی دہشت گردی کی پہلی کارروائی واہگہ بارڈر دھماکہ تھا جس میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس تنظیم نے 2017 میں ایک اور کارروائی کی ذمہ داری بھی قبول کی جس میں کوئٹہ میں چار پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔
بعض تحقیقی مضامین میں خالد خراسانی کے ٹی ٹی پی سے اختلافات کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد وہ تنظیم کی قیادت خود سنبھالنا چاہتے تھے لیکن انہیں قیادت نہیں دی گئی اور ملا فضل اللہ کو سربراہ بنا دیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں