گلگت بلتستان میں انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار عبدالقیوم کی کہانی، خصوصی تحریر: ساجمل یودن

سیول ڈیفنس لوئر کوہستان کا یہ جوان آئے روز ہزاروں فٹ گھہری کھائیوں میں اترتا ہے اور لوگوں کی جانیں بچانے کی کوشش کرتا ہے، پٹن سے تعلق رلھنے والے عبدالقیوم خان نے اب تک شاہراہ قراقرم پر حادثے کا شکار ہونے والے سینکڑوں افراد کو ریسکیو کیا۔ جہاں حکومتی مشینری اور اہلکار جواب دے جاتے ہیں، وہاں یہ جوان اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچتا ہے زخمیوں اور لاشوں کو رسیوں سے باندھ کر یا کندھے پر لادھ کر کھائی سے نکالتا ہے۔ لوئر کوہستان کے حدود میں کوئی گاڑی خراب ہو یا حادثے کا شکار ہو یا پھر بارش کے باعث کئی کئی روز شاہراہ قرارم بلاک ہونے کے باعث پھنسنے والے مسافروں کو فی سبیل اللہ کھانا پہنچانا ہو یہ جوان اپنی ٹیم کے ساتھ ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ چند ہفتے قبل پیش پٹن کے مقام پر لینڈ سلائڈنگ میں ماسفر بس دب گئی جس میں گیارہ افراد جاں بحق ہوئے وہاں بھی سب سے پہلے عبد القیوم اپنے ساتھیوں سمیت پہنچ کر سینکڑوں فٹ گھہری کھائی سے گیارہ لاشوں کو نکال دیا۔ ان کھائیوں میں اُترنا تو دور کی بات فاصلے سے دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے لیکن یہ جوان وہاں روز انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر اُترتا ہے اور سرخرو ہو کر لوٹتا ہے۔ ان کا ایک یا اس سے زیادہ ساتھی ریسکیو آپریشن کے دوران جان بحق بھی ہوئے ہیں، لیکن انکا جذبہ پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ہے اور آج نہ جانے کتنی سانسیں عبدالقیوم خان کی احسان مند ہیں جنہیں انہوں نے بچایا۔
عبدالقیوم خان کہتے ہیں کہ لوئر کوہستان کے حدود میں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے، تب لوگ ریسکیو 1122 اور پولیس کو کال کرنے کے بجائے مجھے کال کرتے ہیں اور ہم چار ساتھی ہیں فوری ایک دوسرے سے رابطہ کرکے جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ عبدالقیوم خان کہتے ہیں کہ گزشتہ آٹھ سال سے وہ اس خدمت میں پیش پیش ہیں کیونکہ اس وقت کوہستان میں ریسکیو کا نام ونشان بھی نہیں تھا لیکن اب دو سال سے ریسکیو کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، مگر شہری علاقوں کا عملہ ہونے کے باعث وہ بھی اس قسم کے آپریشنز میں حصہ نہیں لے سکتے۔ عبدالقیوم نے گزشتہ آٹھ سال سے سینکڑوں حادثات کو ریسکیو کیا اب بھی گلگت بلتستان اور شمالی علاقہ جات کے بہت سارے وہ افراد جن کی انہوں نے فوری مدد کرکے ہسپتال پنچایا وہ ان کا شکریہ آدا کرنے وقتا فوقتا آتے رہتے ہیں۔ عبدالقیوم کو تین سال قبل سیول ڈیفنس کا سربراہ بنایا گیا اس کے بعد انکا مشن مزید تیز ہوگیا اب وہ یونیفارم میں ملبوس ہو کر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ عبدالقیوم خان کہتے ہیں کہ اب تو ان کھائیوں سے آشنائی سی ہوگئی ہے گاڑی کھائی میں گر جائے تو بیشتر کھائیوں میں اُترنے کا آسان طریقہ بھی معلوم ہوچکاہے، اکثر اوقات جب فارغ ہوتا ہوں تو ایسے ہی گھر سے نکل کر شاہراہ قراقرم کے کنارے ٹہلتا ہوں یا کہیں بیٹھ جاتا ہوں اس خوف سے کہ کہیں کوئی حادثہ نہ ہو اور اگر ایسا ہوا تو مدد کیلئے دیر نہ ہوجائے۔ عبدالقیوم نے گزشتہ آٹھ سالوں سے بیشام سے کیال تک ہر جگہ حادثہ ہونے والی گاڑیوں اور زخمیوں کو ریسکیو کیا انکا بیشتر وقت کھائیوں کی چوٹیوں پر گزرتا ہے۔ کوہستان کے لوگوں میں آج عبدلقیوم کو کھائیوں کے سلطان کے نام سے مشہور ہے ، جنہوں نے اپنی زندگی اس کام کیلئے وقف کردی ہے اور آنے والی زندگی بھی ایسے ہی گزانے کا عزم رکھتے ہیں، انکے ان کارناموں کے بدولت کئی سرکاری ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں