قیام پاکستان کےبعدملک میں جس سیاسی جماعت نےحکومت قائم کرلی ہے، یا مارشل لازلگائے ہیں، ہر حکومت کی پہلی ترجیح تعلیم اورصحت کےشعبوں میں بہتری لانی پرمرکوزرہی ہے۔ اگرملک میں اس وقت کی قائم کردہ حکومت یعنی پاکستان تحریک انصاف کی ترجیحات کی بات کی جائےتوان کابھی پہلی ترجیح یہی دوشعبےہیں۔ جہاں پرتعلیمی شعبےکی بات ہےتواس وقت مجموعی طورپرملک میں تعلیم کی شرح 60 فیصد یا اس سے تھوڑا زائد ہے۔ مجموعی طور پر ملکی تعلیمی ریشو میں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اتار چڑھاؤ ضرور آتا رہتا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخواپنجاب کے بعد ملک کا دوسرا صوبہ ہے، جہاں پر تعلیم کی مجموعی شرح زیادہ یعنی 62 فیصد ہے۔ اگرپرائمری سطح کی تعلیم کےتناسب کی بات کی جائےتوملک 5 کروڑ سے زائد بچے اس وقت زیرتعلیم ہیں، تاہم سیکنڈری، پوسٹ سیکنڈری یا اس سے زائد اعلیٰ تعلیم کی حصول کی مجموعی تعداد آدھے سے بھی کم رہ جاتی ہے، جسکی بنیادی وجہ غربت ہے، اسی طرح اور بھی کئی وجوہات ہوسکتے ہیں۔ ملک میں 2 سے زائد کروڑ یا ایسے بچے جن کی عمریں 5 سے16 سال تک ہے، جو کہ غربت کے باعث تعلیم سے محروم ہوتےجارہےہیں۔ ان بچوں میں ایک بڑی تعداد یتیم، نادار وغیرہ بچوں کی بھی ہے۔ ہرحکومت کادعوی ہوتاہے، کہ وہ ملک میں تعلیم کی شرح بڑھانے کیلئے اقدامات کررہے ہیں، لیکن صرف اگرہمسایہ ملک بنگلہ دیش کی بات کیجائے تو ان سے بھی تعلیمی میدان میں ہم سے پیچھے ہیں۔ نجی سیکٹر کا تعیلمی شعبہ یا سرکاری تعلیمی اداروں میں نصاب تعلیم یہ ایک الگ بحث ہے۔ حکومتوں کوچونکہ ملک میں کئی دیگر شعبے بھی دیکھنے پڑتے ہیں، لہذایہ ذمہ داری معاشرےکی بھی بنتی ہےکہ وہ بھی بچوں کو ہر حال میں تعلیم کے حصول کیلئے راہیں ہموار کریں۔ لاکھوں میں ایسےصاحب استطاعت لوگ ہیں جوتعلیم حاصل نہ کرنے والے بچوں کے کم ازکم ابتدائی تعلیم کےاخراجات برداشت کرسکتےہیں۔ جواعلیٰ تعلیم یافتہ پڑھا لکھا طبقہ ہے، وہ بھی ملک میں تعلیم مزید عام کرنے کیلئے شعور پھیلانے سمیت کئی اقدامات لےسکتےہیں۔ ملک میں کئی ایسے فلاحی ادارے ہیں جوتعلیم سمیت کئی شعبوں میں بہتری کیلئےکام کررہی ہیں جسمیں ایک فلاحی ادارہ ہیفافاونڈیشن یعنی “ایجوکیشن اورہیلتھ فارآل” اپنی خدمات پورےملک میں انجام دےرہاہے۔7سال لگ بھگ قبل ہیفاکاوجودمیں آنےکےبعدہزاروں بچے و افراد اسی ادارے کے فلاحی کاموں سےمستفید ہورہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے : بول کہ لب آزاد ہیں تیرے…. تحریر رفعت انجم
اگر خیبرپختونخوامیں دیکھا جائےتو5 سال قبل اسی فاونڈیشن نے اپنے سروسز کا آغاز کیا۔ اب تک صرف خیبرپختونخوا میں ہیفا نجی سیکٹر کے16میڈیکل انسٹی ٹیوشنز اور 14 نان میڈیکل انسٹی ٹیوشنز میں 10 سے 20 فیصد تک کا کوٹہ مقرر کرچکی ہے، جہاں یتیم، نادار جیسے بچے بالکل مفت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایک بچے کا سالانہ خرچہ 1 لاکھ سے10 لاکھ روپے تک بنتاہے۔ ہیفا کے زیر نگرانی اب تک 3 ہزار سے زائد بچے صوبے کے مختلف میڈیکل انسٹی ٹیوشنز میں پڑھ کر اپنے کورسز مکمل کراچکے ہیں۔ اسی طرح 1 ہزار سے زائد بچے اس وقت بھی کئی نجی میڈیکل کالجز سکول و کالجز میں زیرتعلیم ہیں جس کا سارا خرچہ فاؤنڈیشن برداشت کررہی ہے۔ زیر تعلیم بچوں میں ایک بڑی تعداد ماضی کے متاثرہ قبائلی اضلاع سے بھی ہے،اسی طرح دور دراز علاقوں کے طلبہ بھی یہاں کا رخ کر رہی ہے۔ یقیناً اس وقت زیادہ ضرورت دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں تعلیم عام کرنے کیلئے ہے، اگرمثال دیا جائے تو اسلام آباد میں تعلیم کی شرح 85 فیصد سے زائد ہے، اور اگر ضلع تورغر کی بات کی جائے تو وہاں تعلیم کی شرح 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ ہیفا ان تمام تعلیمی اداروں اس کےبدلے سپرویژن سمیت کئی شعبوں میں مفت سروسز فراہم کررہی ہے۔ فاؤنڈیشن نےصوبے کے کئی ہسپتالوں میں ہیلتھ انفارمیشن سنٹرز قائم کئے ہیں ، جہاں 4 ہزار سے زائد والنٹیئرز اپنے فرائض انجام دیکر ہسپتالوں میں علاج کی غرض سےآنیوالےافراد اور ہپستال انتظامیہ کے مابین ہرطرح کی کوارڈینیشن قائم کرتے رہتے ہیں۔ بات کی جائے ہر طرح کے منشیات کی استعمال کی توملک میں اس وقت 70 لاکھ سےزائد افراد منشیات کااستعمال کرتے رہتے ہیں۔ آئس کااستعمال جوکہ کافی بڑھتا جا رہا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق صرف پشاور میں 15 ہزارسے زائد افراد آئس استعمال کررہےہیں۔ باقی صوبےیا ملک میں استعمال کرنےوالوں کی تعداد تو لاکھوں میں ہے۔آئس کااستعمال کرنےوالوں میں ایک بڑی تعداد مرد و خواتین طلبا کی ہےاور آئے روز اس میں اضافہ ہورہاہے۔ ہیفا نے منشیات اور خصوصا آئس کی روک تھام کیلئے ماہرین صحت، علمائےکرام، پروفیسرز و طلبہ پرمشتمل باقاعدہ ایک بورڈ تشکیل دیاہےجواستعمال کی روک تھام کیلئےنہ صرف تعیلمی اداروں میں سیمینارز منعقد کرا رہے ہیں، بلکہ ہزاروں افراد کو بحالی مراکز میں داخل کرواکر ان کی ذہنی تربیت کرا رہی ہے، تاکہ ایسےافرادمستقبل میں اس لعنت سے چھٹکاراحاصل کرپائیں۔ اور ایک مفید شہری بن سکے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں کئی تنظیمیں، ٹاسک فورسز، فلاحی ادارے وغیرہ موجود ہیں، ان کوبھی چاہیئے کہ ہیفا فاؤنڈیشن کیطرح صحت، تعلیم جیسےشعبوں کی بہتری کیلئےاقدامات کرکے حکومت کا ہاتھ بٹھائیں۔ ان اقدامات سے کروڑوں بچوں، بیماروں کامستقبل روشن کیا جا سکتا ہے، اسی طرح ملک بھی مزید ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہوگا۔۔۔
افتاب مہمند ایک صحافی اور بلاگر ہے، قبائلی ضلع مہمند سے ان کا تعلق ہے، اور پشاور سے بحیثیت ایک رپورٹر کام کررہے ہیں، دی خیبرٹائمز کیلئے لکھنے پر انتظامیہ ان کی تہہ دل سے شکریہ آداکرتی ہے
aftabmohmand101@gmail.com