ضد اور انا کے انسانی شخصیت اور معاشرے پر مہلک اثرات ۔۔۔ تحریر ڈاکٹر شیر ایوب داوڑ

“انا” کے دو طول و عرض ہیں ایک تفسیر کو عام سماجی اور معاشرتی ضروریات کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے اور دوسرا تفسیر نفسیاتی نظریہ میں استعمال ہوتا ہے۔ سماجی اور عام روزمرہ زندگی میں انا کو انگریزی میں EGO اور عربی میں “میں”  کا لفظ استعمال ہواہے انا کا مفہوم “میں”  ہے یعنی ایک ایسا “میں”  کہ جس کے علاوہ اپ کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے اور جس کا دائرہ صرف اپکی ذات تک محدود رہتا ہے. یہ انا “میں” پہ شروع ہو کر “میں”  پر ہی ختم ہوتا ہے یعنی میری ذات میری عزت میری شہرت میری محبت میری جیت میرے جزبات میرے احساسات میرا گھر اور بس میرا سب کچھ.
جب سے انسان پیدا ہوا ہے تب سے وہ جس زہریلی اور خطرناک چیز کا سامنا کر رہا ہے وہ “انا کا میں” ہے۔ ابلیس نے حضرت ادم کو تعظیمی سجدہ اسلیے نہیں کیا کہ “میں” اس سے بہتر ہوں ابلیس کی “میں” غالب ائی اور وہ اکڑ گیا چونکہ اللہ تعالا کو “انا” ، غرور اور تکبر سخت ناپسند ہیں اسلیے اسے شیطان بنا ڈالا اسکا مطلب یہ ہے کہ انا ایک شیطانی عمل ہے اور اس پر عمل کرنے والا بھی شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے
انا سے ضد پیدا ہوتا ہے اور جہاں ضد پیدا ہوتا ہے وہاں اپ دوسروں سے غافل ہو جاتے ہیں اپکو دوسرے لوگوں کا احساس تک نہیں ہوتا انا کے باعث انسان خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھتا ہے کسی بھی معاملے میں خود کو درست اور دوسرے کو غلط قرار دیتا ہے ہر وقت اپنی بات پہ ڈٹا رہتا ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو کیونکہ دوسرے کے سامنے جھکنا اپنی توہین سمجھتا ہے انا کی لعنت ہمارے معاشرہ میں بہت ذیادہ ہے اور خاص کر پختون معاشرہ میں تو سب سے ذیادہ ہے یہاں “انا” کو لوگ پختونولی سمجھتے ہیں یغنی جو شخص جتنا ہٹ دھرم ہوتا ہے وہ خود کو اتنا غیرتمند پختون سمجھتا ہے جوکہ جہالت کے سوا کچھ نہیں . یہی وجہ ہے کہ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے گھریلو ناچاقی خاندانی معاملات اور جائیداد کے مسائل سب اس انا کے باعث ہیں بات تو یہ ہے کہ بلندی اور فضیلت کا معیار انا اور تکبر نہیں بلکہ عاجزی ملنساری اور تقوا ہے۔ ہر گھمنڈی دوسرے پہ رُعب اور دبدبہ ڈالنے کے چکر میں اپنی دنیا اور اخرت برباد کر دیتا ہے اسلیے انسان کو مادی ترقی سے ذیادہ ذہنی ترقی پہ توجہ دینی چاہیےجب انسان انا کے حصار میں گھیر جاتا ہے تو ایسی ایسی سنگین غلطیاں کر بیٹھتا ہے کہ اسکے نقصانات کئی نسلوں تک اٹھانی پڑتی ہیں اگر تاریخ کے اوراک پر نظر ڈالی جایے تو دنیا میں جتنی بھی جھنگیں لڑی گئی ہیں ان سب کی بنیاد “انا” ہی تھی .

اب انا ego کو نفسیات کی نظر سے دیکھتے ہیں نفسیات کی زبان میں ego کی ایک الگ ہی مغانی ہے نیسویں صدی عیسوی کے آغاز کے ساتھ ہی نفسیات کے بہت سے موضوعات پر وسیع پیمانے پر تحقیقات شروع ہو گئی تھیں۔ شخصیت کے بارے میں زیادہ تر نظریات مختلف ماہرین نفسیات نے نفسیاتی امراض کی تشخیص اور علاج کے دوران حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں مرتب کیے۔ ان میں سے ایک تحلیل نفسی یا سائیکوانالیسز  Psychoanalysis  ہے۔اس نظریے کی بنیاد آسٹریا سے تعلق رکھنے والے مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ Sigmond Freud نے رکھی ۔ وہ اپنے کلینک میں نفسیاتی امراض کا مشاہدہ کرتا رہا اور اپنے مشاہدات کو قلم بند کرتا گیا، اس نے اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر ایک طریقہ علاج مرتب کیا جس کا نام تحلیل نفسی رکھا۔ ان مشاہدات کی بنیاد پر Freud نے انسانی شخصیت کو تین نظاموں میں تقصیم کیا۔ انہیں وہ لاذات (Id)، انا (Ego) اور فوق الانا (Super ego)  کا نام دیتا ہے اور انہیں شخصیت کے تین اجزا قرار دیتا ہے۔ بعض اوقات یہ تینوں نظام آپس میں تعاون کرتے ہیں، لیکن اکثر ان میں تصادم رہتا ہے۔ اسی تصادم اور تعاون کے نتیجے میں فرد میں شخصی اوصاف پیدا ہوتے ہیں
شخصیت کو یہ تین قوتیں ہی متحرک کرتی ہیں۔ اپنے ماحول سے موافقت یا عدم موافقت پیدا کرنے والا کردار انہی قوتوں کی کارفرمائی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ تینوں قوتیں لاشعور subconscious  میں باہم نبرد آزما ہوتی ہیں۔ ان کے باہمی ٹکراؤ سے جو کشمکش  (Conflict)  پیدا ہوتی ہے۔ اس کا حل بھی عموماً لاشعور میں ہی پایا جاتا ہے۔

ایڈ، انا اور فوق الانا یہ تینوں قوتیں فرد سے باہم متضاد مطالبات کرتی ہیں۔ اس میں بنیادی میل جول کا فقدان ہوتا ہے۔ ایڈ فرد کی بنیادی قوت ہوتی ہے۔ یہ بچے کے اندر ارتقاء کی پہلی سیڑھی پر ہی موجود ہوتی ہے۔ ایڈ بنیادی طور پر خواہشات کو پورا کرکے راحت حاصل کرنا اور ہرطرح کی اذیت سے دور رہنا چاہتی ہے اور فوری طور پر خواہشات کو پورا کرنا چاہتی ہے۔ حقیقت کا تقاضا کیا ہے اور اخلاقی تقاضے کیا ہیں اس سے اس کو کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اس لیے Id خواہشات کی تکمیل کے گرد گھومتی ہیں۔ وہ محل و موقع اور گردوپیش کے حالات و کوائف کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ انجام سے بے بہرہ ہوجاتا ہے۔ ایڈ حیوانی خواہشات کا ذخیرہ ہے۔ اس میں تشدد کی ایسی شدید خواہش بھی ہوسکتی ہے جو فرد کے قابو سے باہر ہو۔ ایڈ کی اضطراری تحریک ذہنی اختلال پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ تشدد، دوسروں پر حملے، ناپسندیدہ و اضطراری حرکتیں ان کی علامتوں میں شامل ہیں۔ اگر اس کو لگام نہ دی جائے تو انسان کے اندر چھپی ہوئی حیوانی خواہشات کو آزاد کردے گا۔ اور دنیا میں انتشار اور لاقانونیت پھیلانے کا سبب بنے گا۔
دوسری قوت انا (Ego) ہے۔ جو آگہی کے حصول کے ساتھ شخصیت کا خاصہ بنتی ہے۔ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے والی یہ سب سے اہم قوت ہے۔ یہ حقیقت پسند ہوتی ہے۔ اس کی رہنمائی دنیاوی حقائق کرتے ہیں۔ یہ ایڈ کے لیے لگام کا کام کرتی ہے۔ لیکن ego کردار کو قابو میں تو رکھتی ہے مگر انسانی کردار کے اخلاقی پہلو سے اس کو کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اس لیے شخصیت میں ایک تیسری قوت سر ابھارتی ہے۔ جس کو فوق الانا یا Super Ego  کہتے ہیں۔ یہ معاشرے، خاندان، والدین اور مذہب سے ملنے والے اخلاقی ضابطوں سے پیدا ہوتی ہے۔ شخصیت کا یہ حصہ  Ego  کا ہی ایک حصہ ہے۔ جو اس سے الگ ہوکر مثالی انا (Ideal Ego) کے طور پر ابھرتا ہے۔ اس کی ایک اخلاقی قوت کی حیثیت ہے۔ یہ شخصیت کی رہنمائی کرتی ہے۔ اور فرد کے کردار کو اخلاقی قدروں اور صحت مند مقاصد کے حصول کی طرف گامزن کرتی ہے۔ اس کی نوعیت تعمیری ہوتی ہے۔ اور یہ صحت مند سماجی و تہذیبی نشوونما کا سبب بنتی ہے۔اس طرح Id اور Super Ego متضاد قوتیں ہیں، جو دو انتہا پر ہوتی ہیں۔ انا ان دونوں کے درمیان رہ کر تطبیق  (Adjustment)  کا کام کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا واسطہ ہے جو دو مخالف قوتوں کے درمیان مفاہمت کراتا ہے۔ Super Ego اور Id دو انتہائی قوتیں ہیں۔ ایک بے لگام ہے تو دوسری ضابطوں اور اخلاق کی اس قدر پابند کے ماحول کے مطالبات کے مطابق اپنے اندر لچک نہیں لاسکتی۔ یعنی ایک متشدد ہے تو دوسری اس قدر سنجیدہ کے انسان کو بے عمل بنادے۔ یہ دونوں ہی انتہائی صورتیں ہیں۔ اور صحت و رجحان کی حامل نہیں ہیں۔ ان سے حقائق کی چشم پوشی ہوتی ہے اور زندگی نارمل نہیں رہ جاتی۔ جیسے کسی پر ایڈ حاوی ہو تو وہ بھی ابنارمل کہلائے گا اور جس پر Super Ego حاوی ہو وہ بھی ابنارمل ہے۔ Ego  دونوں کے بیچ سمجھوتا کراتی ہے اور فرد اور اس کے ماحول کے درمیان ایسی مطابقت پیدا کرتی ہے جو مبنی بر حقیقت ہو۔

ڈاکٹر شیر ایوب داوڑ خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں کنسلٹنٹ سائیکاٹریسٹ ہے ان کے ساتھ موبائل نمبر 03359695946. پر ان کے کلینک اباسین ہسپتال ڈبگری گارڈن پشاور میں رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں