تحریر : احسان داوڑ
سیلاب محسود قبائلی صحافت کے بانی
قبائلی علاقوں میں انضمام سے پہلے ایف سی ار کا قانون رائج تھا جس میں پولیٹیکل ایجنٹ کو بے لگام اختیارات حاصل تھے، وہ چاہتے تو کسی کو بھی نوازتے اور چاہتے تو کسی کو ایف سی ار میں عمر قید کی سزا بھی سنا سکتے اور بہت سے ایسے کیسز ریکارڈ پر ہیں کہ جس میں کچھ لوگ پولیٹیکل ایجنٹ کے اسی فیصلے کی وجہ سے برسوں بنا کسی مقدمے کے جیلوں میں پڑے رہتے۔ ان حالات میں قبائلی علاقوں میں صحافت کرنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا لیکن ایک شخص ایسا بھی پیدا ہوا جس نے اسی ہی ماحول میں صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور بے شمار مشکلات کے باوجود قبائلی علاقوں میں صحافت کی داغ بیل ڈال دی۔اس شخص کو دنیا والے سیلاب محسود کے نام سے جانتے ہیں جنھوں نے تقریباً پانچ دہائیوں سے قبائلی علاقوں میں ایسی صحافت کی جس کی نظیر مغربی دنیا میں بھی نہیں ملتی۔
سیلاب محسود جس کا اپنا نام رفعت اللہ تھا اور سیلاب کے قلمی نام سے مشہور تھے، ایک طویل علالت کے بعد۔۔۔۔ کو اس دارفانی سے رحلت کر گئے۔سیلاب محسود کی وفات سے قبائلی علاقوں میں صحافت کا ایک روشن اور تابندہ باب ہمییشہ کیلئے بند ہوا جس کی کمی شاید ہی کوئی پوری کر سکے۔ سیلاب محسود کی شخصیت ایک صحافی کے علاوہ بھی اپنے اندر ایک ہمہ گیریت لئے ہو ئے تھی۔ وہ بیک وقت ایک صحافی، ایک اچھے نظم گو شاعر جس میں اپنی مٹی اور اپنے لوگوں سے محبت اور ان کے لہجے سے درد جھلکتا تھا، قوم پرستی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی تھی۔
سیلاب محسود نے تعلیم مکمل کیا تو گزٹیڈ افیسر کے پوسٹ پر اس کی تقرری ہو ئی لیکن وہ سرکاری نوکریوں والے مزاج کے حامل شخص نہیں تھے اور اس نے سرکاری نوکری کوخیرباد کہہ دیا اور صحافت کی پُرخار وادی میں قدم رکھا جس کا اس کو بسا اوقات بہت بڑا خیمازہ بھی بھگتنا پڑا۔ سیلاب محسود تاریخ کے وہ اولین صحافی ہیں جن کو ایف سی ار میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ایک ایسے دور میں کہ جب پاکستان میں میڈیا کا اثر و رسوخ بہت کم تھا اور قبائلی علاقوں میں تو شاید گنتی کے چند ہی افراد اخبار پڑھتے تھے یا ریڈیو سنا کرتے تھے کہ جب ان کو قید کرلیا گیا اور ڈیرہ اسماعیل خان جیل کا کال کوٹھڑی میں انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ایک انٹرویو میں مرحوم سیلاب محسود نے اپنے اوپر گذرنے والے ان لمحوں کی کربناکی کو بیان کیا ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ بے لگام اختیارات کے حامل ان دنوں کی بیورو کریسی کو اظہاررائے کی ازادی سے کتنی نفرت تھی اور کس کس طریقوں سے اظہار رائے کی ازادی کو کچلا جاتا تھا۔ لیکن سیلاب محسود کی قربانیوں سے قبائلی علاقوں میں صحافت کی طرف رجحان پیدا ہوگیا اور ہوتے ہوتے اج کے دور میں قبائلی علاقوں میں تین سو سے زائد صحافی ملکی اور غیر ملکی خبر رساں اداروں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ سیلاب محسود نے بطور صحافی نہ صرف خود قومی و بین الااقوامی اداروں کے ساتھ کام کیا بلکہ بطور ایک تجزیہ کار بھی دنیا بھر کے میڈیائی ادروں پر اپنے بے لاگ تجزیوں اور تبصروں سے قبائلی علاقوں کی وہ تصویر پیش کی جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے بارے میں متجسس لوگوں کی بھر پور تشفی ہو تی تھی۔
سیلاب صاحب ہمارے ایک ایسے مشر تھے جس کی اغوش میں قبائلی علاقوں کے تمام صحافی پناہ لیکر سکون محسوس کرتے تھے۔ فاٹا انضمام سے پہلے تمام قبائلی صحافیوں کیلئے انہوں نے سال 1984میں ٹرائیبل یونین اف جرنلسٹس کی بنیاد ڈالی جس پر انہوں نے اپنا خون پسینہ دیکر ایک بلند وبالا عمارت تعمیر کرلی جس پر بعد میں قبائلی علاقوں کے بہت سے صحافیوں نے خوب مزے کئے اور سیلاب صاحب از خود پس منظر میں رہے۔ٹی یو جے کے اجلاسوں کے دوران وہ اکثر شعبہ بازار پشاور کے ایک نجی ہوٹل میں قیام پذیر ہوتے تھے اور اجلاس میں شرکت کیلئے جو جو صحافی اتے تھے ان سب کے اخراجات سیلاب صاحب کے کھاتے میں جاتے تھے۔ یہ تمام ساتھی کھا پی کر چل پڑتے تھے اور بعد میں سیلاب صاحب ادائیگی کرتے اور کسی پر کوئی احسان تک نہیں جتاتے تھے۔ ایسا تھا ان کا دل اور ایسے تھے ہمارے یہ مشر جو اج ہم میں موجود نہیں۔ہمارے سینئر ساتھی ناصر داوڑ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی روزی روٹی اور ان کے منہ کا نوالہ چھین کر قبائلی صحافیوں پر خرچ کرتے تھے۔ ناصر داوڑ کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیلاب اکثر انہیں یہ وصیت کرتے تھے کہ قبائلی صحافیوں میں حاجی محمد پذیر اور باجوڑ سے حاجی حبیب اللہ انہیں قرضہ دیتے تھے حالانکہ ٹی یو جے پر ایک وقت وہ بھی ایا تھا جب کوئی انہیں قرض تک دینے کو تیار نہیں تھا لیکن ان حالات میں بھی سیلاب صاحب نے ٹی یو جے کو ایک بچے کی طرح پال پوس کر بڑا کردیا لیکن افسوس کہ قبائلی صحافیوں نے سیلاب صاحب کے خون پسینے کی بنائی ہوئی اس تنظیم کی کوئی قدر نہیں کی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر اس کی بیخ کنی کرنے میں لگ گئے اور اج حال یہ ہے کہ ہر قبائلی ضلع کی سطح پر صحافیوں میں سے ہر ایک نے ڈیڑھ اینٹ کی اپنی ایک مسجد بنائی ہو ئی ہے اور سیلاب صاحب کے بنائے ہوئے عالمی سطح پر مانے ہوئے تنظیم کے پرچم تلے اتحاد سے بیٹھنے کو تیار ہی نہیں۔
سیلاب صاحب کے ساتھ میری تعلق ایک انتہائی احترام اور تکریم والی تھی اور میں نے ہمیشہ ان کو ایک مشر کی طرح عزت دی تھی جس کا انہیں خود بھی احساس تھا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سیلاب صاحب فرانس کے دورے پر گئے تھے۔ ان دنوں میں میں دبئی میں مقیم تھا اور سیلاب صاحب واپسی پر دبئی میں قیام کرنے والے تھے۔ انہوں نے فرانس سے مجھے اپنے شیڈول کے بارے میں بتایا تو میں نے انہیں دبئی میں قیام کیلئے انتظام کیا۔ میں ان دنوں ایک روسی کارگو میں بطور وئیر ہاؤس مینیجر کام کر رہا تھا۔ سیلاب صاحب کے بارے میں میں نے اپنے افس میں بتایا تو میرے ساتھ افس میں کام کرنے والے دو روسی لڑکیوں نے سیلاب صاحب کے ساتھ ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور دبئی ائیر پورٹ پر انہیں ریسو کرنے گئی۔ انہوں نے سیلاب صاحب کو دیکھا تو ایک لڑکی نے انگریزی میں کہا۔
What a graceful old men he is! اور سیلاب صاحب نے مجھے از راہ مذاق کہا کہ داوڑا تم نے دبئی میں فرانس بنا رکھا ہے۔ سیلاب صاحب کی شخصیت صرف باہر ہی نہیں بلکہ اپنے گھر کے اندر بھی بیک وقت ایک مشفق باپ اور مشر کے ساتھ ساتھ ایک ٹرینر کی طرح تھی جو اپنے نوجوان نسل کے ساتھ ازادانہ ماحول میں گپ شپ بھی کرتے تھے لیکن ان کی تربیت خاص طور پر پشتونوالی کے اقدار پر وہ کسی قسم کے کمپرومائز کرنے کیلئے تیا ر نہیں ہوتے تھے۔ پشاور میں اپ نیوز کے بیورو چیف صفی اللہ گل جو سیلاب صاحب کے بھتیجے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ہوتے تھے تو ڈرتے بھی تھے اور خوش بھی ہوتے تھے۔
سیلاب صاحب ایک انتہائی غیرت مند اور نڈر انسان تھے۔ اس کی وفات سے صرف قبائلی صحافی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے صحافی یتیم ہو گئے۔کچھ عرصہ پہلے سے وہ ریڈیو فری یورپ کے پشتو ریڈیو مشال کے ساتھ بطور نمائندہ کام کرتے رہے۔ ان کے وفات سے قبل ایک دفعہ انہیں شدید قسم کی دھمکیا ں دی گئیں لیکن سیلاب صاحب نے واضح طور پر دھمکیوں کے جواب میں کہا کہ صحافت کیلئے ان کا سب کچھ حاضر ہے۔ سیلاب صاحب کے بارے میں شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ وہ اٹھارہ مرتبہ جیل جا چکے ہیں جس میں کئی بار ان کو عمر بھر کی سزائیں بھی سنائی گئی ہیں لیکن اس مرد حق کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں دیکھی گئی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ قبائلی صحافی تو کیا اسرائیل میں بھی اگر کسی صحافی کے ساتھ زیادتی ہو تو نتائج چاہے جو بھی ہوں ان کیلئے اواز اٹھانا میرا فرض ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں جہاں بھی کسی صحافی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہوتا تو سیلاب صاحب احتجاج کیلئے سب سے پہلے حاضر ہوجاتے تھے۔
سیلاب صاحب اپنے نظریات و افکار کے حوالے سے انتہائی سیکولر تھے لیکن وہ ساتھ ساتھ انتہائی خوش قسمت بھی تھے کہ اپنے اخری ایام کم و بیش تین سالوں سے انہوں نے دنیا کے تمام کام کو چھوڑ کر خود کو فقط یاد الہی کیلئے وقف کردیا اور اس دوران اس نے خود کا معمول صرف اپناگھر اور مسجد تک محدود رہا۔ان کے شاید اس طرح اچانک اپنے معمول میں تبدیلی کی وجہ سے اس کی صحت پر خطرناک اثرات پڑے اور کچھ عرصہ علیل رہنے اخر کار 19مارچ 2020کو 76سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیلاب صاحب کی وفات سے قبائلی علاقوں میں بیباک اور اجلی صحافت کا ایک باب بند ہوا جس کوکوئی پُر نہیں کرسکے گا تاہم وہ خود ایک تاریخ چھوڑ گیا اور جب تک اس دنیا میں صحافت کے حوالے سے کہیں پر بھی کوئی بھی بات ہو سیلاب صاحب کا ذکر ضرور ہوگا۔سیلاب صاحب کے حوالے سے اگر سب کچھ لکھنے بیٹھ جائیں تو شاید کئی کتابیں بھی اس کا احاطہ نہ کرسکے لیکن طوالت کے پیش نظر بس اتنا ہی کہنے پر اکتفا کر تے ہیں کہ کچھ لوگوں کے جانے گھر ویران ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کے جانے وطن ہی ویران ہوجاتے ہیں اور سیلاب صاحب کے جانے حقیقت میں صحافت کے میدان میں قبائلی علاقے ویران ہو گئے۔ اللہ تعالی سیلاب صاحب کی روح کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں۔امین۔