پشاور ( دی خیبر ٹائمز افغان ڈیسک ) افغانستان میں مستقل قیام امن کیلئے کابل میں منعقدہ افغان امن لویہ جرگے کے احتتام کے بعد افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو اور لویہ جرگہ کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا ہے، کہ افغان طالبان کے ساتھ بین الافغان امن مذاکرات کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے اور جلد بین الافغان امن مذاکرات شروع کرنے کیلئے 50 افغان پارلیمنٹرینز پر مشتمل ایک خصوصی کیمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو بین الافغان امن مذاکرات کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرینگے، اس جرگے میں افغان پارلیمنٹ کی چند خواتین ممبران بھی شامل ہیں۔ امن مذاکرات میں ڈیڈ لاک 4 سو طالبان قیدیوں کی رہائی اور مستقل فائر بندی ہے۔ افغان امن لویہ جرگہ میں 50 رکنی کمیٹی کو اختیار حاصل ہے، کہ وہ امن کے قیام اور افغانستان کی روشن مستقبل کیلئے جو بھی فیصلے کریں پارلیمنٹ کو قبول ہونگے۔ یہ خصوصی کمیٹی تین دن کے اندرامن کیلئے اہم فیصلے کریگی۔
افغان طالبان اور امریکا کے مابین دوحہ قطر میں 28 فروری کو ہونے والے افغان امن معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی سب سے اہم شرط رکھا گیا تھا، دوحہ امن معاہدے کے دوران افغان طالبان نےامریکا کو 5 ہزار طالبان قیدیوں کی فہرست دی ہے، جن کی رہائی کیلئے امریکا نے طالبان کے ساتھ وعدہ کیا ہے، جبکہ ایک ہزار قیدی افغان طالبان کے ساتھ بھی موجود تھیں، طالبان بھی ان کی رہائی کے پابند ہونگے۔ افغان حکومت نے اب تک 4 ہزارسے سےزائد افغان طالبان قیدی رہاکردئے ہیں، جبکہ افغان طالبان نے بھی حکومت کے7 سو سے زائد قیدی رہاکردئے ہیں۔
افغان حکومت کے ساتھ طالبان کے 4 سو ایسے قیدی موجود ہیں، جس کی رہائی نہ کرنے کی وجہ سے افغان طالبان اور حکومت کے مابین 10 مارچ سے شروع ہونے والے بین الافغان امن مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہوئے ہیں۔ ان قیدیوں میں 156 کو سزائے موت، 105 کو عمر قید کی سزائیں سنائی دی گئیں ہیں۔ 34 قیدی ایسے ہیں جن پر اغوا برائے تاوان کے مقدمات درج ہیں، 51 قیدی وہ ہیں، جن پر منشایت فروشی کے مقدمات چل رہے ہیں، 44 قیدی عالمی اور افغان بلیک لسٹ میں شامل ہیں، جبکہ6 افراد سنگین اخلاقی جرم میں ملوث رہے ہیں۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے یہ بھی بتایا ہے، کہ لویا جرگہ سے حاصل ہونے والے تجاویز کے مطابق بین الافغان امن مذاکرات کی راہ میں حائل دیگر رکاوٹیں دور کرنے کیلئے اب تک رہ جانے والے تمام قیدیوں کو قومی اور بین الاقوامی ضمانت پر رہا کیا جائے، کہ یہ افراد دوبارہ طالبان کی صفوں میں شامل نہ ہو سکے، انہیں رہائی دی جائے تاکہ مستقل بنیادوں پر امن قائم ہوسکے اور طالبان کے ساتھ پھر جنگ کرنے کا کوئی جواز نہ رہے۔
تاہم اب ان کے مستقبل کا فیصلہ 50 رکنی کمیٹی پر چھوڑدی ہے، وہ جو بھی فیصلہ کریں، وہی فیصلہ افغان قوم اور پارلیمنٹ کیلئے قبول ہوگی۔
یہ بھی واضح رہے کہ افغان طالبان اور امریکا کے مابین دوحہ امن معاہدے میں طالبان قیدیوں کی رہائی اہم شرائط میں سے ایک ہے۔ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے امریکی حکام نے بار بار افغان حکومت کو قیدیوں کی رہائی کا معاملہ جلدی نمٹانے کی ہدایات کررہی ہے۔