دراصل اس نے محض بہانے سے انہیں جان سے ماردیا تھا جسکی وجه سے وه اور اسکا سارا خاندان گونا گوں مسائل سے دوچار ھوچکا تھا۔ حقیقت یه ہے که اس اچانک دشمنی کیلئے اسکی فیمیلی تیار ہی نہیں تھی اوراس وقوعے کیلئے خاندان میں کوئی باہمی مشوره بھی نہیں ہوا تھا۔
قبائیلیوں میں چونکه انتقام کے نہایت سخت غیر لچکدار روایات پائی جاتی ہیں، اسلئے قاتل کے ساتھ ساتھ خاندان کے سارے افراد حفظ ما تقدم کے طور پر زیر زمین چلے گئے۔
معاشی طور پر غیر متحرک ہو نے کی وجه سے نوبت فاقوں تک آپہنچی۔
ان کی آپس کی پیار ومحبت اور اتفاق واتحاد اہسته اہسته ختم ھونے لگا۔ ہر ایک یه تمنا کر نے لگا که اسکے بجائے خاندان کا کوئی دوسرا فرد انتقام کے بھینٹ چڑھ جائے۔ آخر کار یه بھی ھونے لگا که ہر کوئی چھپ چھپا کر مقتول کے خاندان سے ملنے لگا اور اپنی بے گناہی و غیر جانبداری کا یقین دلاتارہا اور اپنے واسطے جان کی آمان پانے کا خواستگا ھونے لگا۔
ایک دن اتفاق سے اس قاتل نوجوان سے ملاقات میں اس سے اپنے غلط اقدام کے متعلق پوچھا تو اس کا جواب نہایت حیران کن تھا۔ کھنے لگا :” دراصل مجھے شروع میں مقتول سے کوئی بعغض اور نفرت نه تھی لیکن گھرمیں اپنے بڑوں سے ہر وقت موصوف کے بارے میں اس کی زیادتیوں اور چیره دستیوں کے قصے سن سن کر مجھے اس سے حد درجه نفرت ھونے لگی۔ میں اس نتیجے پر پہنچا که میرے بڑے اسے قتل کرنا تو چاہتے ہیں، لیکن وه اس پر قادر نہیں لیکن یه کار نامه اگر میں سر انجام دوں تو میں خاندان کا ہیرو بن جاؤنگا اور ہمارا دشمن بھی راستے سے صاف ھو جائیگا۔”
ھمارے قبائلی معاشرے میں اکثر ایسے ہوتا ہے اور پھر اس کا خمیازه باہمی انتشار اور عدم اتفاق کی صورت میں نکلتا ھے۔
لھٰذا اسکا علاج یه ہے که اپنے چھوٹوں اور نوجوانوں کے سامنے کسی کی غیر ضروری قباحت بیان نه کریں اور نه ہی کسی کو قابل گردن زدنی قرار دیاجانا چاہئیے ورنه وه اپ کی لا علمی میں تمہیں بہت بڑے حادثے سے دوچار کردینگے.
وما علینا الاالبلاع.
Load/Hide Comments