**میں ایک لاش ھوں** امین اللہ داوڑ

پته نھیں ملنگ بابا کا تعلق کس علاقے سے تھا.وه نه صرف ضعیف العمر تھے بلکه ادھا دھڑ فالج زده ھو نے کی وجه سے چلنے پھر نے سے بلکل معزور تھے. بابا جی کا اگے پیچھے کوئی نھیں تھا. ھم نے شروع ھی سے انھیں ایک ڈھیلی ڈھالی چارپائی په ایک ڈربه نما کمرے میں محو استراحت دیکھاتھا. سچی بات یه که ان پر یه عنایت بھی ھمارے قصبے کے ایک مخیر اور خدا ترس انسان نے کی تھی. نه صرف یه بلکه ان کی دیگر ضروریات کی ذمه داری بھی حضرت موصوف نے اپنے ذمے لی تھی.
ملنگ بابا ایک دلچسپ انسان تھے اور اکثر اقات بڑے مزے مزے کی باتیں کرتے تھے.
ایک دن مجمعے سے اچانک انھوں ایک سوال کیا. پوچھا. “ کیا اپ لوگوں کو معلوم ھے که مجھ میں اور ایک لاش میں کیا فرق ھے.” ظاھر ھے لوگوں کا جواب نفی میں ھی تھا. لھذا خود ھی جوابا کہنے لگے .” مجھ میں اور لاش میں معمولی فرق ھے اور وه یه که لاش دفنائی جاتی ھے اور میں محض اپنی سانس کی بنا پر دفن ھونے بچا ھوا ھوں.”
اج میں خود کو دیکھتا ھوں تو مجھ میں اور بابا جی میں چنداں فرق نھیں.میرا بھی کوئی والی وارث نھیں بلکه دنیا کے محیر لوگوں( این جی اوز) کے ٹکڑوں په پلتا ھوں. رھتا بھی ان ھی حضرات کی عنایت کرده خیموں میں ھوں. ادھر ادھر چلنے پھر نے سے بھی قاصر ھوں کیونکه ایک تو وسائل کی میری معذوری ھے اور دوسرا مسئله میری شناخت کا ھے.
باباجی کی طرح میرا اپنا گھر; وطن اور کلچر کوئی تھا بھی تو اب کوئی نھیں. بابا جی کی طر ح مجھے کوئی خیر خیرات دیدے تو دعائیں اور کوئی گالی سے نوازے تو سنی ان سنی کر لیتا ھوں….. بس وھی فرق ھے که لاش ھوں لیکن زنده اسلئے مدفون ھونے سے فی الحال بچت ھے.

اپنا تبصرہ بھیجیں