صلاح الدین سے عامر تہکالی تک ۔۔۔۔۔تحریر : زاہد عثمان

صلاح الدین کسی کو یاد ہو کیونکہ ہم ایسی قوم ہیں جنکی یاداشت زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ کام کرتی ہے اور ہفتہ گزرنے کے بعد موجاں ہی موجاں اُسکو کیسے مارا گیا اور کیوں اسکا جواب آج تک کسی کو نہیں ملا ، اور اسکا ذمہ دار کون یہ کسی نے سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اُسکو پولیس والوں نے حوالات میں ماردیا، بات ختم ایک دن پوری قوم رونے لگا، لیکن سوشل میڈیا پر اسکے بعد اور بھی چھوٹے بڑے واقعات ہوتے رہے، لیکن خیر پختونخوا کی مثالی پولیس نے جو مثال قائم کی وہ صلاح الدین کی موت سے بڑھ کر رہے کیونکہ بے رحم یا انسان کے روپ میں جانوروں نے عامر تہکالے کو ایسے مارا کہ وہ مرا بھی اور زندہ بھی، مری اُسکی عزت و آبرو زندہ اُس کا جسم صلاح الدین مرگیا، بات یہاں تک تھی اُسکے ساتھ آہستہ آہستہ ختم ہوگئی، لیکن اُسکی ماں اور باپ کے لئے نہیں لیکن عامر تہکالے کی عزت کے سایہ جو کھلواڑ ہوا وہ ساری زندگی اُسکے لئے تعنہ ہے جو کہیں نہ کہیں جلد یا بعد میں قتل جیسی حرکت کرنے پر مجبور کرے گا چاہے وہ خود اپنے آپ کو ماریں جو سب سے آسان اور نسبتاً کم نقصان والا راستہ ہے دوسرا وہ دہشتگردی کی راہ اپنائیگا اور چار جانور قسم کے انسانوں کی وجہ سے وہ پورے معاشرے کے لئے ناسور بنے گا زیادہ فلسفےسنانے کی ضرورت بھی نہیں، لیکن بات یہ ہے اب کیا ہوگا پولیس راضی نامے کے لئے دباو بڑھائیگی، جو اکثر ہوتا رہتا ہے، اور ہم اسے رپورٹ کرتے ہیں، راضی نامہ ہو بھی جائےگا، عامر تہکالے کے ساتھ جو ہوا ہ سب اُس کے ساتھ رہیگا اور پیچھا اسکی موت تک نہیں چھوڑی گا۔ بات عامر صلاح الدین نقیب محسود ذیشان یا ڈیرہ اسماعیل خان کی خاتون شریفاں بی بی جیسے ہزاروں کی نہیں بات ہے زندہ رہنے والے بائیس کروڑ کی وہ کہاں جائیں؟ انگریزوں کے فرسودہ نظام سے کیسے پیچھا چھوڑائیں کسی کے پاس اس کا علاج ہے بھی یا نہیں ؟ یا کسی نے سوچا ہے انگریز نے اپنے لئے کیا پسند کر لیا تھا؟ جو اب بھی ہے اور ہمارے لئے کیا” انصاف کے نام پر عزتوں کا جنازہ” جس نے پورے معاشرے کو مفلوج کر دیا ہے؟

یہ بھی پڑھئے :  ڈی آئی خان واقعے سے عامر تہکالے تک، تحریر : مصطفی

آج ہمارا معاشرہ ختم ہونے کے قریب ہے تباہ حالی کا شکار یہ معاشرہ مزید گندگی ظلم وذیادتی کا بوجھ اُٹھانے سے رہا پہلا آپشن خانہ جنگی ہوگی دوسرا اور انتہائی خطرناک ملک کی سالمیت خطرے میں ہے قانون انصاف حکومت اور سرپرستی کا انتہائی فقدان ہے، جس کی وجہ سے دن بدن یہ لاوا پک رہا ہے اب اس میں اتنی گنجائش بھی نہیں رہی کہ مزید بوجھ برداشت کرسکے، انصاف کا نہ ہونا ہی تمام مسائل اور فساد کا جڑہے، اور یہ نا انصافی کیوں؟ اور کیسےاسکےذمہ دار وہ لوگ نہیں جنکو پاکستان ملاتھا؟ وہ تو جلد مرگئے اُنکے بعد آنے والوں نے اس ملک کو اپنا نہیں سمجھا، ہر کسی نے اپنی دوکان چمکائی جن کی اولاد آج بھی اس ملک کے سفید سیاہ کی مالک ہے اب بھی وقت ہے نظام بدلنے کی سوچ کو سوشل میڈیا سے نکال کر عملی میدان میں لانا ہوگا ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ رہیگا بانس

نہ بجے گی بانسری

یہ بھی پڑھئے  :  نہ جانے یہ پتھر کب موم ہوجائیگا۔۔ تحریر: کاشف عزیز

3 تبصرے “صلاح الدین سے عامر تہکالی تک ۔۔۔۔۔تحریر : زاہد عثمان

اپنا تبصرہ بھیجیں