ہمارے رو ئے اور مروت کا گدھا۔۔۔ تحریر: احسان داوڑ

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں مروت قوم کے ایک ادمی اپنے گدھے پر کھیتوں سے چارہ لا رہے تھے ۔ راستے میں ایک چھوٹی سی ندی پڑتی تھی جو عموماً خشک رہتی تھی لیکن ایک دن بارش کے بعد اس ندی میں پانی ایا تھا جس کو دیکھ کر گدھے نے ندی میں اترنے سے صاف انکار کیا ۔ ادمی بیچارہ گدھے کو اگے کی طرف دھکیل رہا تھا اور گدھا پیچھے کی طرف بضد تھا ۔ اس کھینچا تانی میں ادمی کی سانق پھول گئی ۔ تھک ہار کر گدھے کے سامنے بیٹھ گیا اور کہا کہ
” اللہ تمھیں غرق کریں جتنا زور پیچھے کی طرف لگایا اگر اتنا اگے کی جانب لگاتے تو اب تک میں بھی اور تم بھی گھر میں ارام فرما رہے ہوتے ”
میں عام طور پر اپنے علاقے کی سیاسی صورتحال سے لاتعلق رہنا چاہتا ہوں کیونکہ ہمارے ہاں برداشت روز بروز مفقود ہوتی جارہی ہے لیکن سوشل میڈیا پر جب اپنے ہی لوگوں کے مابین انتہائی غیر صحتمندانہ الزامات، اعتراضات اور یہاں تک کہ کبھی کھبار تو بات گالی گلوچ تک پہنچ جاتی ہے، دیکھتا ہوں تو بےاختیار مروت والے گدھے کی مثال یاد اجاتی ہے کہ ہم کیوں اپنی توانائیاں منفی سوچ اور منفی کاموں پر خرچ کرتے ہیں ۔ ہم اگر یہی تونائی مثبت طریقے سے خرچ کریں تو علاقے کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو کم ازکم کسی کو ایک دو الفاظ سیکھنے کا موقع تو ملے گا ہی لیکن ہم نے شاید نہ سدھرنے کی قسم کھائی ہے ۔ پوری سوشل میڈیا پر پختون بالعموم اور وزیرستان کے لوگ بالخصوص خود ساختہ غازی بنے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے سیاسی نظریات پر ایسے تیر برساتے ہیں جن میں سیاسی سے زیادہ ذاتی عناد کا رنگ نمایاں ہوتا ہے ۔ ہم نے نہ تو حالات کی گردش سے کچھ سبق حاصل کیا اور نہ ہی ہماری تعلیم ہمیں کچھ دے رہی ہے ۔ تربیت اس لئے تعلیم کے ساتھ استعمال نہیں کررہا کہ تربیت نام کی تو شاید کوئی چیز ہے نہیں ۔ تنقید برائے اصلاح پر شاید ہی کوئی ناراض ہو لیکن تنقید برائے ذات، تنقید برائے ذلت اور تنقید برائے تنقید کا شیواہ ہمیں چھوڑنا ہوگا ۔ اکثر چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں جو مشران پر ایسے الفاظ میں تنقید کرتے ہیں کہ جو ان کے گھریلو ماحول کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں ۔ میں کسی ایک کو خاص طور پر ٹارگٹ نہیں کررہا لیکن اپ نے بھی شاید دیکھا ہوگا، سنا ہوگا اور پڑھا ہوگا کہ کچھ پوسٹس ہم جیسے تہذیب و ثقافت کے امین خطے کے باسیوں کو زیب نہیں دیتے ۔ اس لئے عرض یہ کرنی تھی کہ بے شک تنقید کریں ، لیکن تنقید کے ساتھ اصلاح کا پہلو سامنے رکھیں اور مثبت سوچ کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں ۔ ہم جو لکھتے ہیں وہ صرف لکھائی نہیں ہوتی بلکہ ہماری تربیت اور ہماری شخصیت کی ائینہ دار ہوتی ہے اس لئے خود کو ننگا کرنے کی روش ترک کرنی ہوگی اور بالغ النظری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ خود کے اور اپنے لوگوں کے کپڑے سوشل میڈیا پر لہرانا کسی قسم کی کوئی مردانگی نہیں ۔ احتیاط کیا کریں ۔ ہمارے نفع و نقصان سب ایک جیسے ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں