صحافی کے ساتھ اس کا پورا خاندان بھی پیوند خاک ۔۔ تحریر: اے وسیم خٹک :

اے وسیم خٹک

میرے اس نظرئیے کے ساتھ میرے سارے صحافی بھائی متفق ہونگے کہ ایک صحافی کی موت کے ساتھ ایک صحافی نہیں مرتا بلکہ اُس سے جڑے سب لوگوں کی موت ہوجاتی ہے۔ یعنی گلشن عزیز اور فخرالدین سید کے ساتھ ہی نجانے اُس کے کتنے فیملی ممبرز کی ڈیتھ ہوگئی ہے ۔فخر الدین صاحب تو ایک بار مر کر امر ہوگئے مگر اُس کے خاندان والے اور اس کے بیوی بچے روز جئیں گے اور روز مریں گے۔ کیونکہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ پوری زندگی صحافت کے لئے وقف کی، اسے فرض ہی سمجھا، ایک مشن ہی سمجھا۔ چھٹیاں ، عیدیں ، تہواریں ، غمی ، خوشی سب کچھ صحافت پرقربان کیا، گھر والوں کو وقت نہیں دیا، ملک الموت آیا روح قبض کرلی اور یوں زندگی کا خاتمہ ہوگیا۔ صحافی کے پاس وقت کہاں ہوتا ہے ۔ وہ تو 24 گھنٹے ڈیوٹی پر ہوتا ہے ۔گلشن عزیز 50 سال سے فوٹو گرافی کے شعبہ سے وابستہ تھے۔

یہ بھی پڑھئے: گلشن بھی اور عزیز بھیوہ اسم بامسمہ تھا یعنی گلشن بھی اور عزیز بھی. تحریر : ابراہیم خان

صحافی برادری نے سوشل میڈیا کی دنیا میں اُسے زندہ رکھا، مگر جب جنازہ ہوا تو مجھے کچھ ہی دوست جنازے میں نظر آئے، ایک تو عید اور دوسری کرونا لاک ڈاﺅن کا مسئلہ تھا۔ مگر ہماری بے حسی خاص کر صحافی برداری کی بے حسی سب جانتے ہیں۔ دو کالمی خبر کے ساتھ ہی سب کچھ دفن ہوجاتا ہے ۔ آج ہمارے ایک اور ساتھی فخر الدین سید بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ جس کی صحافت کل کرونا کے ہاتھوں ختم ہوگئی۔ وہ گزشتہ دس دنوں سے سینے میں شدید درد محسوس کر رہے تھے ۔ جب درد کی شدت زیادہ ہوئی تو اُسے ہسپتال میں داخل کیا گیا ۔ مگر وہ کرونا کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ کچھ روز قبل سوشل میڈیا گروپس میں پیغامات شئیر ہونے لگے تھے کہ فخر الدین صاحب کے لئے دعا کریں ۔ایک دوست نے قران خوانی کے لئے بھی ایک پوسٹ وٹس ایپ گروپوں میں شئیر کی تھی۔ اب کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ فخر صاحب اتنے سخت بیمار ہیں کیونکہ صحافت بذات خود ایک بیماری ہے جس میں کسی بھی چیز کا احساس نہیں ہوتا، صحافی بھوک کا عادی ہوتا ہے، اس کو موت سے ڈر نہیں لگتا۔ باس کی جھڑکیوں کا وہ عادی ہوچکا ہوتا ہے۔ دوسروں کے لئے مسیحا ثابت ہونے والا خود در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے ۔ اُس کے خاندان والوں کے طعنے ہمیشہ اسے ملتے ہیں ۔ بیوی اپنے بچوں کو صحافی نہ بنانے کی قسم کھاچکی ہوتی ہے کہ گھر میں بھوک اور فاقے ہوں گے ۔ یعنی کون سی وہ تکلیف ہوگی جو صحافی نے نہ جھیلی ہو۔ اپنوں کی کج ادائیوں کے باعث بھی وہ پریشانی کا شکار ہوگا ۔مگر موت کا ذائقہ تو ہر ذی روح کو چکھنا ہے۔ تو صحافی بھی اس سے مبرا تو نہیں۔۔۔ مگر صحافی کی موت کے بعد صحافی کے خاندان والوں پر کیا گزرتی ہے اس کا کسی کو نہیں پتہ۔ ہمارے کتنے صحافی بھائی اپنی جان سے چلے گئے، کیا کسی نے بعد از موت اُن کے گھر والوں سے رابطہ کیا؟ کیا اس کے بیوی بچوں کے بارے معلومات کیں کہ وہ اب کس حال میں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کتنے صحافی جان سے گئے اب کرونا میں صحافی بھی فرنٹ لائن پر تھے۔ کیونکہ ان کی جاب سرکاری نہیں ہے ۔اس لئے اس کرونا لاک ڈاﺅن میں بھی ہمارے صحافی بھائی خطرے سے دوچار رہے۔ ڈاکٹرز کو کٹ دئیے گئے۔ سیاست دان این 95 ماسک میں گھومتے رہے مگر ہمارے صحافی بھائیوں کو نہ ادارے نے سپورٹ کیا اور نہ ہی حکومت نے ان پر کوئی نظر کرم کی۔ایک صحافی خاندان متاثر ہوا ۔ کچھ دن میڈیا ادارے کا سربراہ رابطے میں رہا، پھر نظریں پھیر لیں جب تنخواہ دینے کے دن آئے تو منہ پھیر لیا۔ فخر الدین سید بھی اس کرونا کے باعث اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اپنی ڈیوٹی انجام دی۔ خود کو رسک میں ڈالا، خبر کے لئے اپنے ادارے کے لئے، اپنے فرض کے لئے قربان ہوگئے۔ اور گھر میں سوگوران کو چھوڑ دیا مگر اپنے پیچھے اپنے سارے خاندان کو مار دیا جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ عام صحافی نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارتا ہے ۔اسے بھوک مارتی ہے، اسے روئیے مارتے ہیں، مگر جب تک زندہ ہوتے ہیں، ایک امید زندہ ہوتی ہے، اُس کے گھر والوں کی ایک آس ہوتی ہے کہ تنخواہ کبھی تو ملے گی کبھی تو گھر میں چولہا جلے گا مگر جان جوکھوں میں ڈال کر جب ایک صحافی مرتا ہے تو صرف ایک ٹکر چلتا ہے، ایک دو کالمی خبر اور ایک ہنستے چہرے کی تصویر چھپتی ہے جس میں ساری دنیا کے غم پنہاں ہوتے ہیں، ایک خودداری نظر آتی ہے، مگر جب خبر پرانی ہوجاتی ہے ۔ دوسری خبر اس کی جگہ لے لیتی ہے تو صحافی کو کوئی جانتا بھی نہیں ۔ اس کے خاندان سے کوئی رابطہ بھی نہیں کرتا۔ اب کیا پتہ فخرالدین سید کے گھر والے اس کے بیوی بچے کیا کریں گے؟ کیونکہ صحافی کی کوئی پنشن نہیں ہوتی، کوئی فنڈ نہیں ہوتا۔ جب تک زندہ ہوتا ہے ۔ تب تک پیسے آتے ہیں، جب آنکھ بند ہوئی سب ختم ہوگیا ۔یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج فخر الدین سید کے ساتھ اُس کا سارا خاندان بھی پیوند خاک ہوگیا۔

یہ بھی پڑھئے:  دو ٹکے کے مشروم صحافی تحریر : اے وسیم خٹک

2 تبصرے “صحافی کے ساتھ اس کا پورا خاندان بھی پیوند خاک ۔۔ تحریر: اے وسیم خٹک :

اپنا تبصرہ بھیجیں