خواجہ سرا کورونا لاک ڈاؤن کے باعث ایک نئےاور مشکل امتحان سے دوچار تحریر: ہارون الرشید

بنیادی انسانی اورمعاشرتی حقوق سے محروم خواجہ سراﺅں کی مشکلات میں کوروناوائرس نے مزید اضافہ کردیاہے سماجی مشکلات کے بعد لاک ڈاﺅن کے باعث معاشی مسائل سے خواجہ سراﺅں کو جانوں کے لالے پڑگئے اوروہ خواجہ سراءجوپہلے شادی بیاہ یادیگرتقریبات میں اپنے لئے رزق کا حصول ممکن بناتے تھے ،جنسی بے راہ روی کاشکارہوگئے ہیں۔کورونا کے باعث اگرلاک ڈاﺅن مزید طوالت اختیارکرتاہے توخیبرپختونخواکے ذہنی تناﺅاورمالی بحران کے شکار ہزاروں خواجہ سراءکی زندگی مزیداجیرن ہوجائے گی۔

کوروناکے باعث خواجہ سراﺅں کے سماجی ومعاشی مسائل کیاہیں؟؟۔۔
غیرسرکاری تنظیم بلیووینزکے پروگرام کوارڈی نیٹر قمرنسیم بتاتے ہیں کہ کوروناکے پیش نظر خواجہ سراﺅں میں سماجی دوری نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ کرایے کے ایک ہی کمرے میں پانچ سے10خواجہ سرارہائش پذیرہوتے ہیں جوایک ہی باتھ روم استعمال کرتے ہیں معاشرے کے دھتکارے خواجہ سراﺅں کو اسوقت اپنے رشتہ داربھی کوروناکی خوف سے گھروں پر نہیں رکھ رہے ہیں دوسرا مسئلہ انہیں مالی مشکلات کادرپیش ہے شادی بیاہ کی تقریبات پرپابندی ہے اسی وجہ سے خواجہ سراﺅں کے رقص پروگرامات نہیں ہورہے ہیں جسکے باعث ان پرگھروں کا کرایہ چڑھ رہاہے اس صورتحال میں خواجہ سراءمقروض ہوچکے ہیںدوسری طرف مالکان گھرخالی کرانے کے نوٹسزبھجوارہے ہیں۔

خواجہ سراﺅں میں کوروناکیسزکی تعدادکتنی ہے ؟؟۔۔
سماجی دوری اختیار نہ کئے جانے کے باعث حتی الامکان ہے کہ خواجہ سراءبھی اس وائرس کاشکارہونگے تاہم شی میل ایسوسی ایشن کی صوبائی صدر فرزانہ کے مطابق اس وقت صوبے میں کوئی بھی خواجہ سراءکوروناسے متاثرنہیں ہوا ہے اگرکوئی کوروناسے متاثرہوابھی ہو تو وائرس کے خوف،مالی مشکلات اورہسپتالوں میں نارواسلوک کے باعث کوئی ٹیسٹ کرانے نہیں جاسکتاخواجہ سراﺅکےساتھ ہسپتالوں میں بھی طبی عملہ کا غیراخلاقی سلوک رہتاہے علاج کی غرض سے جانےوالے خواجہ سراءہسپتالوں میںعوام کی مذاق کا تماشابن جاتے ہیں ڈاکٹرکے عجیب سوالات ہوتے ہیں کیاکام کرتی ہو،کہاں رہتی ہو،رقص پرجاتی ہو ،ایچ آئی وی تو نہیں؟خواجہ سراﺅں کے معالجے کےلئے خیبرپختونخواحکومت نے صوبے کے تقریباً22تا24اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں میںخواجہ سراﺅں کےلئے الگ بیڈزمختص ہیں تاہم ڈاکٹروں کی خواجہ سراﺅں کے علاج معالجہ سے متعلق باقاعدہ تربیت ہونی چاہئے۔

یہ بھی پڑھئے : دہشت گردی نے وزیرستانی خواتین کا روایتی لباسگھانڑ ختبھی ہڑپ کرلیا.. تحریر: احسان داوڑ

خواجہ سراﺅں کےلئے سرکاری ہسپتالوں میں وارڈزکب مختص ہوئے؟؟۔۔
مئی2016ءمیں 25سالہ خواجہ سراءعلیشاءکے قتل کے بعد جب شی میل ایسوسی ایشن نے الزام عائد کیاکہ متوفی کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں طبی امدادبروقت نہیں ملی جسکے باعث اسکی موت واقع ہوئی اس کے بعدخواجہ سراﺅں اور بلیووینز کی تنظیموں نے ٹرانس جنڈرکی صحت عامہ سہولیات کےلئے ہرفورم پرآوازاٹھائی جسکے بعد خیبرپختونخواحکومت نے جولائی2019ءمیں پسماندہ طبقے کےلئے امتیازی سلوک سے بچنے اور طبی سہولت کو آسان بنانے کےلئے تمام سرکاری اسپتالوں میں الگ الگ وارڈز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اوریوں صوبے کے 20سے زائد اضلاع کے درسگاہوں کے ہسپتالوں میں ٹرانس جینڈر افراد کےلئے پانچ بستروں کو مختص کیا گیاکٹیگری اے اوربی ہسپتالوں میں چار بیڈ اور کٹیگری سی ہسپتال میں خواجہ سراﺅں کےلئے تین بستروں پرمشتمل وارڈزمختص کئے گئے ۔

حکومت اورفلاحی تنظیموں کے اقدامات کیاہیں؟؟۔۔
لاک ڈاﺅن کے دوران پشاورسمیت خیبرپختونخواکے خواجہ سراﺅں کوبعض غیرسرکاری تنظیموں کی طرف سے فوڈآئٹمزکے پیکجزملے ہیں البتہ احساس پروگرام میں کسی بھی خواجہ سراءکو اب تک 12ہزارروپے کی رقم نہیں ملی اس دوران کرایے کی عدم ادائیگی کے باعث گھروں سے بے ہونےوالوں کےلئے بھی حکومت کی طرف سے کوئی شلٹرہوم کابندوبست نہیںکیاگیاہے۔ٹرانس جینڈررہنماعلی شاہ شیرازی نے رابطے پربتایاکہ کوروناکے باعث دیگرطبقات کی طرح خواجہ سراءبھی مسائل میں گھیرے ہوئے ہیں اپنے گورواورگھروالوں کاپیٹ پالنے کی خاطر اکثرخواجہ سراءدوسروں کےساتھ جنسی طور پر ملوث ہوجاتے ہیں ،معاشرتی پستی کے باعث کوئی ٹرانس باآسانی سینما،پارک،انسٹیٹیوٹ نہیں جاسکتا اسوقت خواجہ سراءگھروں نمیں قیدوبندکی زندگی گزارنے پرمجبورہیں ۔

یہ بھی پڑھئے :  اب کورونا کے ساتھ رہنا ہے،مگر احتیاط اور حفاظتی تدابیر کیساتھ عمران ٹکر

خیبرپختونخوامیں خواجہ سراﺅں کی تعدادکتنی ہے؟؟۔۔
صوبے میں خواجہ سراﺅں کی اصل تعدادکے بارے میں اب تک متصادات دعوے ہی سامنے آئے ہیں شی میل ایسوسی ایشن اور بلووینز کادعویٰ ہے کہ خیبرپختونخوامیں خواجہ سراﺅں کی تعدادپچاس ہزارکے قریب ہے جبکہ 2017کی مردم شماری کے مطابق پورے ملک میں خواجہ سراﺅں کی تعداددس ہزار418ہے جن میں خیبرپختونخوامیں خواجہ سراءکی تعداد صرف913ہے۔اسی طرح نادراریکارڈکے مطابق صوبے میں صرف ایک ہی خواجہ سراءرجسٹرڈ ہے خواجہ سراﺅں کےلئے فلاحی منصوبوں کے شروع ہونے میں سب سے بڑی رکاﺅٹ اصل تعدادمعلوم نہ ہونا سمجھتی جاتی ہے۔

یہاں بھی ایک نظر:  لاک ڈاﺅن یا زہر قاتل ؟ تحریر،ہارون رشید


ادارے کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں 

خواجہ سرا کورونا لاک ڈاؤن کے باعث ایک نئےاور مشکل امتحان سے دوچار تحریر: ہارون الرشید” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں